Monday 16 November 2015

Maryam Malik Interview

 قرةالعین وومین کمپلینٹ سیل کی انچارج سے گفتگو

 مریم ملک
قراةالعین وومین کمپلینٹ ’یل کی انچارج ’ے گفتگو
مریم ملک
وومین کمپلین ’یل حیدرآباد کی انچارج قرةالعین کا تعلق حیدرآباد “ہر کے ایریائ قا ’م آباد ’ے ہے۔ آپ کی پیدائ “ ۲مئی ۱۸۹۱ئ میں درمیانے طبقے ’ے تعلق رکھنے والے گھرانے میں ہوئی۔ آپ نے نف ’یات میں ما ’ٹر ’ کیا ہے۔ گز “تہ آٹھ ’الوں ’ے وومین کمپلینٹ ’ینٹر میں بڑی بہادری کے ’اتھ خدمات انجام دے رہی ہیں۔

’وال: وومین کمپلین ’یل کا کیا مق ”د ہے اور یہاں پر خواتین کو کیا ’ہولیات فراہم کی جاتی ہیں ؟
جواب: یہاں پر جو بے ’ہارا خواتین ہیں۔ جن کے پا ’ پی ’ے نہیں ہوتے کہ وہ اپنی قانونی معاوانات لے ’کیں۔ان کو ہم بغیر ک ’ی معاوضے کے لیگل ا ’ ’ٹن ’ دیتے ہیں ۔ دو ’را کاﺅن ’لینگ مہیا کر رہے ہوتے ہیں۔اگر کوئی ای ’ے کی ’ آتے ہیں۔ جن کو “یلٹر کی ضرورت ہے ان کو دارلامان میں بھیج دیتے ہیں اور یہ جو کمپلین ’یل ہے ۸۰۰۲ ’ے کام کر رہا ہے۔حیدرآباد ڈ ’ٹرک کے اندر یہاں پر ہم مختلف ق ’م کے جو وومین ای “و ہیں۔جی ’ے ہرا ’منٹ ہے،ڈومی ’ٹک ایولین ’ ہے، ریپ ہے، گینگ ریپ ہے،عزت کی خاطر قتل کرنا ہے،کم عمر میں “ادی ہے، زبرد ’تی کی “ادی ہے، ا ’ کے علاوہ دو ’رے جتنے بھی کی ’ ہیں وہ ہم یہاں پر ڈیل کر رہے ہو تے ہیں ۔ا ’ کے ’اتھ ’اتھ ہم کاﺅن ’لنگ کی بھی ’ہولیات ان کو مہیا کر رہے ہوتے ہیں۔
’وال: آپ کے پا ’ ک ’ طرح کی خواتین ر جوع کرتی ہیں؟
جواب:مےرے پا ’ جتنی بھی خواتین ہیں وہ درمیانے اور نچلے طبقے ’ے تعلق رکھتی ہیں۔کیونکہ زیادہ تر ان کے پا ’ تعلیم نہیں ہوتی ۔ان کے پا ’ اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے حق کے لیے بول ’کیں۔تو ا ’ وجہ ’ے وہ بے ب ’ ہو کر یہاںپر آتی ہیں ۔تعلیم کی کمے کی وجہ ’ے انہیں ’مجھ نہیں آ رہا ہوتا کہ وہ کیا کریں کچھ خواتین ای ’ی بھی ہوتی ہیں کہ وہ گھریلو م ’ائل کی وجہ ’ے فوراً فی ”لے لے رہی ہو تی ہیںکہ ہمیں خلع چاہیئے یا “وہر کے ’اتھ نہیں رہنا ہمیں بچے چاہیئے تو میں ان کا وئن ’لنگ کر رہی ہوتی ہوں کہ میں ان کو نورمل ذندگی کی طرف لے کر آﺅں ۔کیونکہ میں یہ ’مجھتی ہوں کہ ہمارے معا “رے میں کم ’ے کم خلع ہو ۔تو ہم ان کو ہر ’ہولیات دیتے ہیںاور ہر طرح ’ے مدد کرتے ہیں۔

’وال: ک ’ ق ’م کی خواتین آپ ’ے رجوع کرتی ہیں اور کہاں ’ے آتی ہیں؟
جواب: مےرے پا ’ زیادہ تر اندرونِ ’ندھ کی خواتین آتی ہیں ۔ یہاں حیدرآباد میں بھی کچھ ای ’ے علاقے ہیں جی ’ے پریٹاآباد پری ’ کلب، نورانی ب ’تی کا علاقہ ہے اورکوٹری ہے۔ یہ ای ’ے کچھ پ ’ ماندہ علاقے ہیں جہاں پر جہا لت کی وجہ ’ے عورتوں کے اوپر ظلم و ’تم کیے جا تے ہیں ، مارا پیٹا جاتا ہے،لیٹ نائٹ ان کو گھر ’ے دہکے دے کر نکال دیا جاتا ہے۔
مطلب یہ ”رف تعلیم کی کمی کی وجہ ’ے ہو رہی ہیں،ہم مذہب ’ے بہت ذیادہ دور ہو گئے ہیں، ہم لوگو ں میں اتنا “عور یا آگہی نہیں ہے کہ ہم ک ’ی کو ا ’کے جائز حقوق بھی دے ’کیں ۔ان ’ب معاملات میں ان کو ’پورٹ کر رہی ہوتی ہوں ۔تو میرے ’اتھ پولی ’ کا تعاون بہت اچھا ہوتا ہے، میڈیا مجھے بہت ذیا دہ ’پورٹ کر رہی ہوتی ہے اور کورٹ ’ کی طرف ’ے بھی کافی ’پورٹ ہو رہی ہو تی ہے ۔لیکن میری کو “ “ ہوتی ہے کہ جب میرے پا ’ کوئی کلائنٹ آئے تو میں ا ’کو کورٹ اور تھانے کی طرف نہ بھیجوں ۔کیونکہ بات چیت ’ے ہم بڑے ’ے بڑے م ’ئلے کو بھی ہم بہت آ ’انی ’ے ہل کر ’کتے ہیں۔ا ’ کمپین کو ہم جاری رکھتے ہوئے ان علاقوں میں بھی جا نے کی کو “ “ کریں گے جہاں پر ذیادہ تر کمپلیننٹ ہیں ۔جو ان م ’ائل ’ے گزر رہی ہیں ۔جتنی آگاہی ہمیں عورت کو دینے کی ضرورت ہے مجھے لگتا ہے کہ ا ’ ’ے کہیں ذیادہ مردوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے کیونکہ دیکھئے کہیں نہ کہیں ای ’ا نہیں کہ ”رف مرد ہی ظلم کر رہا ہوتا ہے کبھی کبھار ہماری خواتین میں بھی بردا “ت نہیں ہوتی ہے۔تو ہمیں دونو ں کو ’مجھانا چاہیئے کہ وہ اپنے نجی معاملات گھر بیٹھ کر ہل کر ’کتے ہیں۔

’وال: جب عورت گھر ’ے نکلتی ہے تو ک ’ ق ’م کا ا ’ پر ت “ددہواہوتاہے کبھی آپ نے ’وچا ےا پو چھنے کی کو “ “ کی جی ’ا کہ آپ نے کہا کہ آپ کون ’یلنگ کرتی ہیں تو وہ آپ کو بتاتی ہیں ؟ذیادہ تر آپ کے پا ’ ک ’ ق ’م کے کی ’ آتے ہیں؟ت “دد والے آئے؟ طلاق کے آئے؟ تیزاب کا ا ’تعمال ہے؟ان میں ’ے کون ’ے کی ’ آپ کے ’امنے آئے ؟
جواب: میرے پا ’ تو تقریباً ’ارے ہی کی ’ آتے ہیں لیکن جو عموماً میں کی ’ دیکھتی ہوںمیں وہ ہی بات کہہ رہی ہوں کوئی “ک نہیں کہ عورت کے ’اتھ بہت برا ہوتا ہے جب ہی عورت ذات اپنے گھر کی چار دیواری کے باہر آتی ہے۔میں نے بہت ’ارے ای ’ے کی ’ دیکھے ہیں جہاں عورت مارکھا رہی ہوتی ہے۔گھریلو ت “دد ہو رہا ہوتا ہے ۔خواتین ا ’ کوبردا “ت کر رہی ہوتی ہیں۔لیکن خواتین جو گھر ’ے نکلنے کا فی ”لہ کرتی ہیں وہ ذہنی طور پر بہت ذیادہ پری “ان ہوتی ہیںتب وہ یہ فی ”لہ لیتی ہیں کہ ہمیں یہاں پر نہیں رہنا ، جب ہی انہیں یہ فی ”لہ لینا چاہیئے۔ تو جب وہ آتی ہیں تو یہ نہیں ہے کہ ہم پہلے ہی یہ بولیں کہ آپ طبی معاینہ کرواوکہ آپ کو ج ’م پر کہاں پر ت “دد کیا ہے یا آپ کے ’اتھ اگر ج ’مانی چیز بھی ا ’تعمال کی گئی ہے تو ج ’م کے کون ’ے ح ”ّے پر کی گئی ہے اور ک ’ طریقے ’ے کی گئی ہے بہت ’اری خواتین ذہنی طور پر پری “ان ہو کر گھر ’ے نکلتی ہیں ۔ذہنی طور پر بھی ا ’یلئے بھی پری “ان ہوتی ہیں کہ ہمارے یہاں پر غربت بہت ہے مطلب کمانے والا ایک ہوتا ہے اور ا ’ کی تنخوائ ۰۱ ہزار ہو تو ظاہر ’ی بات ہے ۔ ہر بندہ یہاں پر گورنمنٹ نوکری پر نہیں ہے اور نہ ہی ہر بندہ نجی اداروں میں بھی کام نہیں کر رہا ہے۔ بہت ’ارے میں نے آپ کو بتایا ہے نچلے طبقے کے ہمارے پا ’ کی ’ آتے ہیں تو ان کی ذریعہ آمدنی اتنی نہیں ہو تی ایک کچھ فیملیاں ’اتھ میں رہے رہی ہوتی ہیںتو آپ ’ میں ’ا ’ نند کے م ’ائل ذیادہ ہوتے ہیں دو کمروں کا گھر ہے ۔اور ا ’ میں رہنے والے د ’ پندرہ لوگ ہوتے ہیں ۔اِ ’ نے یہ کہا، اُ ’ نے یہ کہا،یہ ’ب باتیں ان کو اتنا پری “ان کر رہی ہوتی ہیں کہ وہ چیزوں کو کم کرنے کے بجائے ان کو اور اپنے ذہن پر حاوی کر لیتی ہیں۔یہ ا ’ ہی وجہ ’ے ہیں اگر ہم اپنے رویوں پر مثبت تبدیلی لے کر آئیں تو مجھے نہیں لگتا کہ نہ کوئی گھر برباد ہوگا اور نہ ک ’ی کے گھر کی بیٹی جائے گی یہ ک ’ی کی بیٹی پر کوئی لڑکا غلط نگاہ رکھے گا اور بغیر بردا “ت کے کوئی ر “تہ ذیا دہ وقت تک قائم رہ نہیں ’کتا اور ماﺅں ’ے بھی یہ درخوا ’ت کروں گی کہ پلیز آپ نے اپنی ذندگی گزاری ہے تھوڑی اپنی بیٹیوں کو بھی ان کی عملی ذندگی گزارنے دیں اور اُن ماﺅں ’ے بھی گزار “ کرﺅ ں گی کہ خدا کا وا ’تہ کے جب آپ نے اپنے بیٹوں کی “ادی کی ہے کچھ ٹائم اُن دونوں کو بھی دیں، اُنکی بھی زندگی کی نئی “روعات ہے، آپ ان ’ر پر اتنا ’وار نہ ہو جائیں کہ ر “تے خوب ”ورتی کے بجائے بد ”ورتی کی طرف چلیں جائیںاور گھر کے حالات خراب ہوجائیں اور پھر ہم لوگو ں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔
’وال: آپ میں خواتین کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
جواب: میں یہ ہی اپنے ادارے کی طرف ’ے اور میری طرف ’ے بھی یہی پیغام دوں گی۔کہ آپ اپنے اندر قّوتِ بردا “ت رکھیں ۔ مخت ”ربولیں اور پُراثر بولیں ا ’ ’ے آپ کے ر “توں کو کوئی خراب نہیں کر ’کے گا اور آپ خود دیکھیں گی کہ آپ ان دو چیزوں کو عمل میں لائیںگی تو آپ کی ذندگی بہت خو “حال ہو گی اور آپ اورہم اچھی ذندگی گزاریں گی کیونکہ ہمارے گھروں ’ے ہی ہمارا ’ماج بنت ہے اور ہمارے گھروں ’ے ہی ہمارے آنے والی ن ’ل بنتی ہے۔


 MARYAM MALIK Roll No: 2K14/MC/
INTERVIEW OF QURATULLAIN
SOHAIL SANGI

Saturday 14 November 2015

Profile of Yousuf Laghari Advocate

U should have written ur name and roll number

پروفائیل

حقوق کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے یوسف لغاری 
حقوق کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے یوسف لغاری 
پروفائل سعدیہ شمیم 

ساٹھ اور ستر کے عشرے نے سندھ میں ایسی نسل دی جو اہل نظر بھی تھی تو اہل فکر بھی۔ اس کی وجہ سندھ میں ون یونٹ اور ایوبی آمریت کے خلاف تحریک تھی۔ جس میں نوجوانوں نے یعنی طلباء نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ادیبوں، شاعروں، سیاستدانوں، ڈاکٹروں، وکلاء اور صحافیوں کے بڑے بڑے نام اسی دور کی پیداوار ہیں۔ یوسف لغاری بھی اسی کھیپ کا حصہ ہیں۔جو ستر سال کی عمر میں بھی ایکٹوسٹ ہیں۔
میرپورخاص کے چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والے یوسف لغاری نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں سے اور پھر ضلع ہیڈکوارٹر میرپورخاص سے حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں سندھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ 1967 میں جب کمشنر حیدرآباد مسرور احسن کے کہنے پر سندھ یونیورسٹی کے وائیس چانسلر حسن علی عبدالرحمان کا تبادلہ کیا گیا تو یونیورسٹی کے طلباء سراپا احتجاج ہوگئے۔ یہ یونیورسٹی کی خود مختاری میں نوکرشاہی کی مداخلت تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کمشنر مسروراحسن خود وائیس چانسلر بننا چاہتے تھے۔ 
10 نومبر 1964ء کو حیدرآباد اسٹوڈنٹس فیڈریشن بنانے کے لئے طلباء کنونشن منعقد ہوا۔ یوسف لغاری کنوینیئر اور جام ساقی جنرل سیکریٹری چن لیے گئے۔ یہ طلباء تنظیم بائیں بازو کے زیر اثر کام کر رہی تھی۔
چار مارچ کو سندھ یونیورسٹی کے طلباء نیو کیمپس جامشورو سے بسوں میں سوار ہو کر احتجاج کرنے کے لئے حیدرآباد شہر آرہے تھے۔ جیسے ہی طلبائکی بسیں اس مقام پر پہنچیں جہاں اب راجپوتانا ہسپتال قائم ہے، پولیس نے طلباء کی بسوں کو روک کر ان پر لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس برسائی۔ نتیجے میں درجنوں طلبہ زخمی ہوگئے اور سینکڑوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ یوسف لغاری اس احتجاج کی قیادت کرنے والوں میں سے تھے۔ اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’جب ہم جامشورو کے پاس پہنچے تو پولیس، فوج اور رینجرز کے اہلکاروں نے پل کی ناکہ بندی کردی اور لڑکوں کو بسوں سے اتار کر پکڑنا شروع کردیا، وہ انہیں مارتے رہے اور فائرنگ بھی کی جس سے بہت سارے لڑکے زخمی بھی ہوئے۔ کئی لڑکوں نے دریا میں چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی۔یہ طلباء تحریک بعد میں سندھ بھر میں پھیل گئی۔یہ وہی چار مارچ ہے جو سندھ میں ون یونٹ مخالف تحریک کے ابھار کا سبب بنی۔ یوسف لغاری طالب علمی کے دور تک طالب علم لیڈر رہے اور طلباء تحریک کی رہنمائی کرتے رہے۔طلباء تحریک میں یوسف لغاری کے دیگر قریبی ساتھیوں میں جا م ساقی ،یوسف تالپور، علی احمد بروہی، مسعود نورانی، شامل ہیں۔ 
بعد میں انہوں نے میرپورخاص میں وکالت شروع کی۔ اور چند ہی برسوں میں کامیاب اور بڑے وکیل کے طور پر ابھرے۔ 
وہ نظریات اور فکر میں سندھ دوست اور عوام دوست رہے۔ کیونکہ طالب علمی کے دور میں ان کی ترقی پسند رہنماؤں سے قربت رہی۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں جب مخلتف سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں پر خصوصی فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے تو یوسف لغاری واحد وکیل تھے کو ان کی پیروی کرنے کے لئے پہنچتے تھے۔ انہوں نے مارشل لا دور کے مشہور مقدمات جام ساقی کیس، ہائیجیکنگ کیس، ایاز سموں کیس وغیرہ کی پیروی کی۔ انہوں نے گھانگھرا موری کیس، ٹنڈو بہاول کیس کے مقدمات کی بھی پیروی کی۔
یوسف لغاری پاکستان بار کونسل کے وائیس چیئرمین بھی رہے۔ 
سابق ایڈوکیٹ جنرل سندھ یوسف لغاری کا ہاریوں کے بارے میں اس طرح کا موقف رہا ہے۔ انہوں نے حٰدرآباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ستتر ہزار ہاریوں کے گاؤں رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں، انہیں رجسٹرڈ کیا جائے اور لیبر کورٹ کی طرح عدالتیں قائم کر کے ہاریوں کو انڈسٹریل ایکٹ کے حقوق دیئے جائیں۔سیمینار میں یہ بھی زیر بحث آیا کہ وقت کے ساتھ سندھ میں ٹیننسی ایکٹ کی افادیت کم ہو گئی ہے، جس میں ترمیم کی ضرورت ہے، جس سے ہاریوں اور آبادگاروں کے مسائل کے حل میں مدد ملے گی۔
تارکین وطن کی صورتحال کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں نے بیرون ملک ہیں مقامی پاکستانی کمیونٹی کو تقسیم کردیا ہے وقت کی یہ اہم ضرورت ہے کہ پاکستانی کمیونٹی کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے تاکہ کمیونٹی کو اپنے مسائل حل کرنے کے لئے مشترکہ پلیٹ فارم مہیا ہو، تارکین اصلاح معاشرہ کیلئے اقتصادی معاشی سیاسی اور سماجی انقلاب بپا کریں۔ 
غاری سندھی اخبارات میں کالم بھی لکھتے رہے۔ نوے کے عشرے میں انہیں آل پاکستان نیوزپیپرز سوسائٹی کی جانب سے بہترین کالم نگار کا ایوارڈ ملا۔لہٰذا وہ اچھے وکیل ہی نہیں اچھے کالم نگار بھی ہیں۔ اپنی تحریروں میں عوامی دانش کے ذریعے موجودہ حالات کی تشریح کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔بعد میں ان کے کالموں کا مجموعہ کتابی شکل میں بھی شایع ہوا۔ چار مارچ پر ان کے تفصیلی انٹرویو اور مضامین بھی شایع ہو چکے ہیں۔
بعد میں وہ میرپورخاص سے حیدرآباد منتقل ہوئے ، لیکن میرپورخاص میں وکالت کا دفتر جاری رکھا۔ پیپلزپارٹی جب 2008 کے انتخابات کے بعد حکومت میںآئی تو انہیں ایڈوکیٹ جنرل سندھ بنایا گیا۔ دسمبر 2010 میں انہوں نے صوبائی وزارت قانون سے اختلافات کے بعد ایڈووکیٹ جنرل سندھ کے عہدے سے استعیفا دیدیا۔ وہ ڈھائی سال تک اس عہدے پرفائز رہے۔ 
انہوں نے سپریم کورٹ میں ایک مقدمے کی پیروی کے دوران سپریم کورٹ کو چونکا دیا جب انہوں نے عدلات سے گزارش کی کہ قرارداد مقاصد کو آئین سے خارج کردیا جائے۔ انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ قرارداد 56 کے آئین میں دائیں بازو کے عناصر نے شا مل کروائی تھی جسے جنرل ضیا نے دورباہ آئین کا حصہ بنایا۔ سرکاری سطح پر یہ بہت ہی بولڈ موقف تھا۔ 
انہوں نے سندھ میں متبادل قیادت دینے کی بارہا کوششیں کیں۔ اسی ضمن میں انہوں نے متوسط طبقے اور اہل فکر و نظر حضرات کو سندھ ڈیموکریٹک گروپ کے نام پر جمع کیا۔ لیکن ان کی یہ
کوشش ادھوری رہی۔ انہوں نے دو مرتبہ الیکشن میں بھی حصہ لیا لیکن پزیرائی نہ مل سکی۔ 
یوسف لغاری انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے بانی ممبران میں سے ہیں۔
ا نہوں نے میرپورخاص میں لاء کالیج قائم کیا۔ جس کے ذریعے نچلے طبقے اور پسماندہ علاقے کے سینکڑوں لوگ وکالت کی ڈگری حاصل کر سکے۔ اور اپنے روزگار کے ساتھ حقوق کا دفاع کرنے لگے۔ 
سندھ کے سیاسی کارکنوں اور ادبی حلقوں میں ماما یوسف کے طور پر پہچان رکھنے والے طبیعت میں سادہ قصے، کہانیاں اور لطیفے سنانے کے بادشاہ یوسف لغاری بے باک شخص اور اچھے وکیل کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ 
دوستوں کے حلقوں میں ما ما یوسف کے طور پر پہچان رکھنے والے یوسف لغاری ایڈووکیٹ ابھی بھی اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں وہ کبھی عدلاتوں میں، کبھی اخبارات کے کالموں میں، کبھی ٹاک شو میں یا پھر کبھی مختلف سیاسی پروگراموں نظر آتے ہیں اور اسی انداز اور لہجے میں بات کرتے ہیں جو جوانی میں تھا۔
Practical work was carried under supervision of Sir Sohail Sangi 

Thursday 12 November 2015

Chand Bibi Sultana Interview by Simra Shaikh

Chand Bibi Sultana Interview by Simra Shaikh 

 تاریخ ذاتی نظریات میں غلط ملط ہو کر رہ گئی ہے:ڈاکٹر چاند بی بی سلطانہ 
انٹرویو: ڈاکٹر چاند بی بی سلطانہ 

 سمرہ شیخ 
MC/93 SIMRA NASIR
 ڈاکٹر چاند بی بی سلطانہ نامور تعلیم دان ہیں وہ ڈائریکٹر پاکستان اسٹیڈیز سینٹر سندھ یونیورسٹی رہ چکی ہیں۔ انہوں نے ایم اے ہسٹری سندھ یونیورسٹی سے کیا اس کے بعد برٹش کونسل کی اسکالرشپ پرایم اے ایجوکیشن آکسفورڈبروک یونیورسیٹی انگلینڈ سے کیا۔ ڈاکٹر چاند بی بی نے دو کتابیں لکھیں ہیں ، ایم۔ایڈ اور بی ۔ایڈ جن کو 
سوال : تعلیم کا آغاز کہاں سے شروع ہوا اور تعلیمی سفر مےں کوئی مشکلات پیش آئےں؟
جواب : حیدرآباد کے مدرستہ البنات ہائی اسکول سے شروع کیاجس میں مجھے سماجی ثقافتی اور مالی مشکلات پیش آئی ۔حیدرآباد بہت چھوٹا شہر ہے اس زمانے میںپرائمری اور ہائی اسکول بہت کم ہوتے تھے جو بہت پرانے زمانے سے قائم شدہ تھے اس میں ہی داخلے ملا کرتے تھے اور تعلیم جاری رکھنا پڑھتی تھی اور وہ بہت فاصلوں پر ہوتے تھے مثال کے طو ر پر ٹرانسپورٹ بہت محدود تھے اور رہائش اور اسکول میں فاصلے بہت ہی طویل ہوا کرتے تھے یہ ساری مشکلات تھی ۔عام طور پر پیدل ہی جانا پڑتا تھا اس زمانے میں ٹانگے ہوا کرتے تھے جو کہ لڑکیوں کو پیدل جانے کے لئے گھر کے ایک افراد کا ساتھ ہونا ضروری ہوتا تھا جو کہ لے کرجائے اور اسکول چھوڑ کر آئے آج کے دور میں بھی لڑکی اکیلے اسکول نہیں جاسکتی یہ سماجی مسائل ہے جن کا تبدیل ہونا بہت ضروری ہے ثقافتی مسائل بھیی پیدا ہوتے ہیں اور جیسا کے مختلف قوموں میں لڑکیوں کو تعلیم دلانا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا مےرا تعلق بختیار زئی قبیلے سے تھا تو میرے والدین کو خاندانی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ 

سوال : اپنے مسلم ہسٹری میں پہلے ایم اے کیوں کیا؟
جواب:  میری والدہ کو ہسٹری (تاریخ) کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا اس لئے میرا نام تاریخی رکھا گیااور گھر میں تاریخی اور مذہبی رجحان بہت تھا اور والدہ تاریخی قصے سنایاکرتی تھیں تو میرا رجحان بھی اسلامی تاریخوں کی طرف ہوا اس لئے میں نے پہلے ایم۔ اے اسلامی تاریخ میں کیا۔

سوال : ہسٹری لکھی گئی اس سے آپ کتنی متفق ہیں کہ تاریخ کس طرح سے لکھی جائے نقاد کہتے ہیں کہ تاریخ صحیح طو رپر نہیںلکھی گئی ہے؟
جواب:  میں متفق ہوں کہ تاریخ ہر دور میں بادشاہ وقت کی خوشنودی کے لئے لکھی گئی ہے بہت سے واقعات مسخ ہوگئے ۔ آج بھی تاریخ خوش آمد یا انتقامت کے لئے لکھی جاتی ہے ہر ایک واقعہ مختلف لوگ مختلف نظرےات سے لکھتے ہیں لہذا تاریخ جو ہے ذاتی نظریات میںخالط و مالط ہوجاتی ہے لہذا صبح تاریخ کا اندازہ لگانا مشکل ہے نقاد اپنے نظریہ کی بات کرتے ہیں لہذا جو حالات اور واقعات حکمرانوں کے دور میں نظریاتی طور پر مختلف ہوں تو تاریخ سچے راستے سے ہٹ جاتی ہے۔ 

سوال : تاریخ کی نصاب میں کتابیں کیسی ہیںاور کس طرح کی ہو نی چاہئے ؟
جواب:  پاکستان میں بھی نصاب میں جو قدیم اور جدید تاریخ ہے وہ نظریات اور مختلف عقائد سے بھری ہوئی ہے لہذا نصاب میںجو تاریخ پڑھائی جائے وہ دین دنیا اور تاریخ اسلام کے کارناموں سے موزین ہونا چایئے آباﺅ اجداد کے تاریخی کارنامے ہوں اور ان کی بہادری کے قصے اور ملک چلانے کے مختلف کامےاب طریقے تہذیب و تمدن اور حکمرانی کے عامور کا عکس نصاب کی تاریخ میں ہونا چاہئے۔ 

سوال : ہسٹری کو ذیادہ تر سب اس لئے چھوڑ دیتے ہیں کہ اس کا اسکوپ نہیں آپ کیا کہتی ہیں اس کے بارے میں ؟
جواب:  تاریخ لکھنے والے مصنف تاریخ دانوں کو چاہئے کہ تاریخ رقم کرتے وقت اسے دلچسپی سے تحریر کریں تاکہ طالب علم اسے پڑھے اور پڑھنے میں دلچسپی لے ہمارے ملک میںتاریخ دانوں کی اس لئے کمی ہے کہ حالات اور واقعات کی سچائی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ 

سوال :طالب علموں کے لئے کوئی پیغام کہ وہ کس طرح سے اپنی زندگی کامیاب بنا سکتے ہیں؟
جواب:  کسی بھی ملک کا طالب علم اس ملک کا مستقبل ہوتا ہے اور اس کی قابلیت اور محنت سے ہی نہ صرف ملک چلتے ہیں بلکہ ادارے بھی چلتے ہیں اور اس کے خاندان بھی چلتے ہیںلہذا طالب علم کو محنت کرنی چاہئے اور محنت سے ہی پڑھ کر پرچہ حل کرے کیونکہ اس کو ہر وقت علم دینے اور ہر علم حاصل کرنے کا مراحلہ در پیش ہوتاہے۔ زمانہ طالب علمی میں زندگی کو موزم طریقے سے گزرنا چاہئے اور زندگی کے اصولوں پر عمل کرنا چاہئے ایمانداری جو زندگی کے لئے بہت ضروری ہے۔ ایمانداری ایک ایسا اصول ہے جس پر کبھی نقصان نہیں ہوتا دنیا میں جتنے بڑے لوگ گزرے ہیں ان کی زندگی کے بارے میں پڑھنا چاہئے کہ انہوں نے زندگی میں کیسے کامیابی ملی غرور اور تکبر سے دور رہنا چاہئے سوچ سمجھ کر بولنا چاہئے اور دوسروں کی عزت نصف کا خیال کرنا چاہئے اور اپنے استادوں کا احترام کرنا چاہئے اور والدین کی عزت اور قدر کرنی چاہئے کتابیں اور اخبار پڑھنا چاہئے۔ 

MC/93 SIMRA NASIR
---------------------
 تاریخ ذاتی نظریات مےں غلط و ملط ہو گئی ہے: ڈاکٹر چاند بی بی سلطانہ 
انٹروےو: ڈاکٹر چاند بی بی سلطانہ 
 سمرہ شیخ 
 ڈاکٹر چاند بی بی سلطانہ نامور تعلیم دان ہیں وہ ڈائریکٹر پاکستان اسٹیڈیز سینٹر سندھ یونیورسٹی رہ چکی ہیں۔ انہوں نے ایم اے ہسٹری سندھ یونیورسٹی سے کیا اس کے بعد برٹش کونسل کی اسکالرشپ پرایم اے ایجوکیشن آکسفورڈبروک یونیورسیٹی انگلینڈ سے کیا۔ ڈاکٹر چاند بی بی نے دو کتابیں لکھیں ہیں ، ایم۔ایڈ اور بی ۔ایڈ جن کو خیرپور یونیورسٹی کے کورس میں شامل کرلیاگیا ہے ۔

سوال: تعلیم کا آغاز کہاں سے کیا؟ اور تعلےمی سفر مےں کوئی مشکلات پےش آئےں؟
جواب : حےدرآباد کے مدرسہ البنات ہائی اسکول سے شروع کےا جس مےں مجھے سماجی ثقافتی اور مالی مشکلات مےں پےش آئی حےدرآباد بہت چھوٹا شہر ہے۔ اس زمانے مےں پرائمری اور ہائی اسکول بہت کم ہوتے تھے جو بہت پرانے زمانے سے قائم شدہ تھے اس ہی مےں ہی داخلے ملا کرتے تھے اور تعلےم جاری رکھنا پڑتی تھی اور وہ بہت فاصلوں پر ہوتے تھے۔ پر ٹرانسپورٹ بہت محدود تھی اور رہائش اور اسکول مےں فاصلے بہت ہی طوےل ہوا کرتے تھے۔ ےہ ساری مشکلات تھی۔ عام طور پر پےدل ہی جانا پڑھتا تھا اس زمانے مےں ٹانگے ہوا کرتے تھے جو کہ لڑکےوں کو پےدل جانے کے لئے گھر کے اےک افراد کا ساتھ ہونا ضروری ہوتا تھا جو کہ لے کر آئے اور اسکول چھوڑ کر آئے آج کے دور مےں بھی لڑکی اکےلے اسکول نہےں جاسکتی۔ ےہ سماجی مسائل ہے جن کا تبدےل ہونا بہت ضروری ہے ثقافتی مسائل بھی پےدا ہوتے تھے اور جےسا کے مختلف برادریوںمےں لڑکےوں کو تعلےم دلانا اچھا نہےں سمجھا جاتا تھا مےرا تعلق بختےار زئی قبےلے سے تھا تو مےرے والدےن کو خاندانی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ 

سوال: آپ نے مسلم ہسٹری مےں پہلے اےم اے کےوں کےا؟
جواب : مےری والدہ کو ہسٹری (تارےخ ) کتابےں پڑھنے کا بہت شوق تھا اس لئے مےرا نام تارےخی رکھا گےا اور گھر مےں تارےخی اور مذہبی رجحان بہت تھا اور والدہ تارےخی قصے سناےا کرتی تھےں تو مےرا رجحان بھی اسلامی تارےخوں کی تھا اس لئے مےں نے پہلے اےم اے اسلامی تارےخ مےں کےا۔

سوال: ہمارے ہاں تاریخ جس طرح سے لکھی گئی اس سے آپ متفق ہےں کہ تارےخ کس طرح سے لکھی جائے نقاد کہتے ہےں کہ تارےخ صحےح طو رپر نہےں لکھی گئی ہے؟
جواب: مےں متفق ہوں کہ تارےخ ہر دور مےں بادشاہ وقت کی خوشنودی کے لئے لکھی گئی ہے۔ بہت سے واقعات مسخ ہوگئے ۔ آج بھی تارےخ خوش آمد ےا انتقامت کے لئے لکھی جاتی ہے۔ ہر اےک واقعہ مختلف لوگ مختلف نظرےات سے لکھتے ہےں لہذا تارےخ جو ہے ذاتی نظرےات مےں غلط و ملط ہوجاتی ہے۔صحیح تارےخ کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ نقاد اپنے نظرےہ کی بات کرتے ہےں لہذا جو حالات اور واقعات حکمرانوں کے دور مےں نظرےاتی طور پر مختلف ہوں تو تارےخ سچے راستے سے ہٹ جاتی ہے۔ 

سوال: تارےخ کی نصاب مےں کتابےں کےسی ہے ا ور کس طرح کی ہو نی چاہئے ؟
جواب: پاکستان مےں بھی نصاب مےں جو قدےم اور جدےد تارےخ ہے وہ نظرےات اور مختلف عقائد سے بھری ہوئی ہے لہذا نصاب مےں جو تارےخ پڑھائی جائے وہ دےن دنےا اور تارےخ اسلام کے کارناموں سے موزےن ہونا چائے آباﺅ اجداد کے تارےخی کارنامے ہوں اور ان کی بہادری کے قصے اور ملک چلانے کے مختلف کامےاب طرےقے تہذےب و تمدن اور حکمرانی کے عامور کا عکس نصاب کی تارےخ مےں ہونا چاہئے۔ 

سوال: ہسٹری کو ذےادہ تر سب اس لئے چھوڑ دےتے ہےں کہ اس کا اسکوپ نہےں آپ کےا کہتی ہےں اس کے بارے مےں ؟
جواب : تارےخ لکھنے والے مصنف تارےخ دانوں کو چاہئے کہ تارےخ رقم کرتے وقت اس مےں دلچسپی سے تحرےر مےں ڈالے تاکہ طالب علم اسے پڑھتے اور پڑھنے مےں دلچسپی لے ہمارے ملک مےں تارےخ دانوں کی اس لئے کمی ہے کہ حالات اور واقعات کی سچائی ڈھونڈنے سے بھی نہےں ملتی۔ 

سوال : طالب علموں کے لئے کوئی پےغام کہ وہ کسی طرح سے اپنی زندگی کامےاب بنا سکتے ہےں؟
جواب : کسی بھی ملک کا طالب علم اس ملک کا مستقبل ہوتا ہے اور اس کی قابلےت اور محنت سے ہی نہ صرف ملک چلتے بلکہ ادارے بھی چلتے ہےں اور اس کے خاندان بھی چلتےہ ےں لہذا طالب علم کو محنت کرن چاہئے اور محنت سے ہی پڑھ کر پرچہ حل کرے کےونکہ اس ہر وقت علم دےنے اور ہر علم حاصل کرنے کا مراحلہ در پےش ہوتا زمانہ طالب علمی مےں زندگی کو موزم طرےقے سے گزرنا چاہئے اور زندگی کے اصولوں پر عمل کرنا چاہئے اےمانداری جو ہے زندگی کے لئے بہت ضروری ہے اےمانداری اےک اےسا اصول ہے جس پر بھی نقصان نہےں ہوتا دنےا مےں جتنے بڑے لوگ گزرے ہےں ان کی زندگی کے بارے مےں پڑھنا چاہئے کہ انہوں نے زندگی مےں کےسے کامےابی ملی غرور اور تکبر سے دور رہنا چاہئے سوچ سمجھ کر بولنا چاہئے اور دوسروں کی عزت نفس کا خےال کرنا چاہئے اور اپناے استادوں کا احترام کرنا چاہئے اور والدےن کی عزت اور قدر کرنا چاہئے کتابےں اور اخبار پڑھنا چاہئے۔
MC/93 SIMRA NASIR 
Simra Shaikh
This practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi


Wednesday 11 November 2015

Resham Bazaar by Fatima Mustafa


Feature by: Fatima Mustafa
Roll No: 2k14-MC-27
RESHAM GALI AND SHAHI BAZZAR
Resham Gali is a name of market which is located in Hyderabad, this is one of the most preferable market of Pakistan for people. In the shops of Reham Gali you found a lot variety of bed sheets which is called Agrak bedsheet and the most preferable thing in Reham Gali is bangles that are not very much expensive and bangles are beautiful and exported to nearby cities of Hyderabad like Kotri , Jamshoro and nearby regions of  Sindh. The Shahi Bazar is considered one of the longest bazaars in Asia.

The visitor of Hyderabad must go to see and shop in the several kilometre long narrow lane bazaar. The word Shahi is derived from the word 'Shah' which means 'kings'. This bazaar is known as Shahi Bazaar because it was first established by Kalhora ruler who, when changed the capital of Sindh from Khudabad to Hyderabad, persuaded many traders to come and start trading at this bazaar. It starts from the very gate of the Packo Qilo Fort and extends up to the Naval Rai Clock Tower. Plenty of souvenirs, handicraft, and embroidery and jewelry shops can be found in Shahi Bazaars where you can hunt down for wide variety of different quality of handicrafts and souvenirs at very reasonable prices. You can find here plenty of shops sell Ajrak and Sindhi caps. An attraction in the bazaar is a tall structure of Navalrai Market Clock Tower built in 1914 at the one end of bazaar. Resham Gali, a lateral extension of Shahi Bazaar known for large variety of clothes, glass bangles, Sindhi 'Kundan' gold jewelry as well as imitation jewelry.

Ramadan is the Best time to visit Hyderabad markets when the streets are overloaded with lights, late night cricket tournaments are at peak and shopping complexes surcharged. Resham Gali is very old market of Hyderabad, there is found more than 200 shops that earn daily a great economy for the city about 70% economy of Hyderabad is based on this market. Resham Gali is situated at the centre of city. Right side it contain a route to cloth market, biggest cloth centre of Hyderabad city. In left it contains route to Hyder chock. From top it contain beautiful markets like Tilak Chari and Chotki Ghiti. We can judge it is biggest trading centre after than Karachi in Sindh. Resham Gali also contains food shops where people make their breakfast drink tea eat different varieties of Hyderabad city.

The route that Reham Gali is situated always we found rush of cars because of it is big shopping centre and people get their items of very cheap rates. In market a bulk rush of girls and women is found because market contain ladies garments cloths goods that mostly attracts female gender to market. Beside the market there are shops of used cloths that contain used cloths but in good condition for the people of Hyderabad with less budget. These cloths are no local but are imported from internally and sold in Hyderabad Resham Gali market. Reham Gali contain more than 7 roots for entrance and exits from different corners of other markets.

under supervision of Sir Sohail Sangi

Monday 9 November 2015

Interview with librarian Mazhar Qutub

2k14/MC/63
محمد سعود شیخ
انٹر ویو
لا ئبر یر ین مظہر قطب

تعا رف 
لا ئبر یر ین مظہر قطب لطیف آباد میں عظیم لائبریری نا می ایک لا ئبر یر ی کے ما لک ہیں ۔ یہ 15سال سے اس پیشے سے وابستہ ہیں ۔ مظہر صا حب کتا بو ں سے بے انتہا ءلگاﺅ ر کھتے ہیں ۔ انہو ں نے ڈگر ی کا لج سے بی ۔ ایس ۔ سی کیا ہو ا ہے ۔ یہ لا ئبر یر ی ان کے والد صا حب نے شر وع کی اور ان کی وفا ت کے بعد یہ چلا رہے ہیں ان لا ئبر یر ی میں کتا بو ں کی تعدادتقریباً ۰۰۰۵ہے۔ جو مختلف موضوع پر لکھی گئی ہیں۔ یہ نہایت سبلیقہ مند اور نرم مزاج آدمی ہیں ان کے مطابق


کتابوں پر خرچ ہونے والے پیسے خرچہ نہیں
بلکہ پوری زندگی کے لیئے سرمایہ کاری ہے


س: آپ کتنے سال سے اس لائبریری کو چلارہے ہیں اور آپ کیا دیکھے ہیں لوگوں کے شوق میں اضافہ ہوا ہے یاکمی؟
ج: یہ لائبریری میرے والد مرحوم نے شروع کی اور اس کو تقریباً بیس سال ہو چکے ہیں اور جہاں تک شوق کی بات ہے تو میں کہوں گا کہ اس میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔ آج سے تقریباً دس سال پہلے لوگ کتامیں پڑھ کے بے حد شوقین تھے اور پنا ہر ہر پیسہ کتابوں پر خرچ کردیا کرتے تھے۔

س: اس لائبریری میں آپ کے پاس کتنی کتابیں اور زیادہ تر کاموضوع کیا ہے؟
ج ہمارے پاس اس لائبریری میں تقریباً  ہزار ۵کتابیں ہیں جو مختلف موضوعات پر لکھی گئی ہیں جن میں زیادہ ترکا موضو ع سائنس ہے اور اس کے علاوہ کہانیاں ، ناول، رسالے اور ڈائجسٹ بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔

س: آپ کتابیں گھروں کی تعداد اور لوگوں کے شوق کے بارے میں کیا کہیں گے؟
ج: دیکھیں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور میں دوسرے زلائع کی وجہ سے کتاب گھروں اورکتابوں کیاہمیت میں کمی واقع ہوئی ہے ۔ لیکن ایک خاص طبقہ ابھی بھی کتابوں سے بے انتہا د لگاﺅ رکھتا ہے۔ اور ان میںسے کچھ کم سے کم۵ صفحے پڑھے بغیر اپنے دن کو مکمل نہیں سمجھتے۔

س: کس موضوع پرلوگ آپ سے کتابیں زیادہ طلب کرتے ہیں؟
ج: دیکھیں جہاں تک موضوع کی بات ہے اس پر ہر عمر کے افراد اپنا خاص زوق رکھتے ہیں ۔ بڑی عمر کے افراد زیادہ تر سیاسی اور معاشرتی پر لکھی جانے والی کتابیں طلب کرتے ہیں ۔ جو ان زیادہ تر سائنسی کتابیں اور بچوں کو کہانیاں پسند ہوتی ہیں ۔ عورتیں اور لڑکیاں زیادہ تر ناول اور ڈائجسٹ پڑھنا پسند کرتی ہیں۔

س: آپکے نزدیک لطیف آباد نمبر۸میں شیخ لائبریری ہے جو خاصی بڑی بھی ہے آپ کے خیال میں اس کے ہوتے ہوئے لوگ آپ کے پاس آنا کیوں پسند کریں گے؟
ج:شیخ لائبریری حقیقتاً بہت بڑی ہے لیکن ہمارے پاس کچھ مذہبی کتابوں اور شاعری پر لکھی گئی کتابوں کا ذخیرہ ان سے زیادہ ہے اور ان کتابوں کو پڑھنے والے لوگ ہماری لائبریری کارخ کرتے ہیں۔

س: اس لائبریری سے آپکی ماہانہ کتنی آمدنی ہوجاتی ہے؟
ج: جی اس لائبریری سے بہت زیادہ نہیں تقریباً ۲۱ سے ۵۱ ہزار تک آمدنی ہوجاتی ہے۔

س: کچھ لوگوں کا کہنا ہے لائبریرین ایک بورنگ جاب ہے۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
ج: نہیں ایسا تو کچھ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی جاب ہے جو آپکو روز روز تعلیم یا فتہ بنارہی ہوتی ہے۔ البتہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ لائبریرین خاموش طبیعت کے مالک ہوتے ہیں ۔ کیونکہ خاموشی لائبریری کا ایک بنیا اصول بھی ہے۔

س: آپ اگلے دس سالوں میںکتابیں گھروں کا مستقبل کیا دیکھئے ہیں۔
ج : موجودہ دور میں ٹیکنا لوجی بہت تیز ہوگئی ہے اور انسان کی معلومات کے زرائع وسیع ہوگئے ہیں آپ زیادہ تر لوگ انٹرنیٹ کا استعمال کرکے ہر طرح کی معلومات حاصل کرلیتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں ہر بندہ اس خرچ کو برداشت نہیں کرسکتا اور وہ معلومات حاصل کرنے کا ذریعہ کتاب ہی کو سمجھتا ہے۔ لیکن میں یہ کہوں کا کہ یہ ختم نہیں ہو سکتے کیوںکہ یہ ایسی جگہ ہے جہاں انسان اور کتاب کے درمیان کوئی نہیں ہوتا۔

س: آپ اپنے پڑھنے والوں کو کتابوں کے بارے میں کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
ج: میں پڑھنے والوں کو یہ کہنا چاہوں گا کہ کتابیں انسان کی بہترین دولت ہیں اور دنیا میں جتنے بھی عظیم لوگ آئے۔ جنہوں نے اپنے ملک اور اپنی قوم کی خدمتکی یا دنیا کو اپنی تحقیق سے نوازا یہ سب لوگ کتابوں سے بے پناہ محبت رکھتے تھے۔ اور اس محبت نے ہی انہیں کامیاب انسان بنایا اور دنیا میں جتنی بھی جدّت آجائے کتابوں کی اہمیت باقی رہے گی۔



 -----------------------  FIRST VERSION -------------------
word space,  photo is required. should have read proofs. 
 If u did not filed in hard copy earlier , this will not be considered. 
 There should be space between  one question  (and its answer) and to another question, Try to not use English word, this will disturb the format. even otherwise  it looks bad.  BSc u can write in urdu, and number of books can be written in words in urdu.
Blue marked is irrelevant question, Blue words are mis-spelled. U should have mentioned its private library. bit compare and contrast between govt and other private library like Shiakh library of unit no 8
This could have been a better interview, if taken with proper home work
Photo of the personality and library required
Questions answer should be like this:
س: 
ج:



محمد سعود شیخ  2k14/MC/63
انٹر ویو
لا ئبر یر ین مظہر قطب

تعا رف 
لا ئبریرین مظہر قطب لطیف آباد میں عظیم لا ئبریری نا می ایک لا ئبریری کے ما لک ہیں ۔ یہ 15سال سے اس پیشے سے وابستہ ہیں ۔ مظہر صاحب کتا بو ں سے بے انتہا ءلگاﺅ رکھتے ہیں ۔ انہوں نے ڈگری کا لج سے B.Scکیا ہوا ہے ۔ یہ لا ئبر یری ان کے والد صا حب نے شر وع کی اور ان کی وفا ت کے بعد یہ چلا رہے ہیں ان لائبریری میں کتا بوں کی تعداد تقریباً 5000ہے۔ جو مختلف موضوع پر لکھی گئی ہیں۔ یہ نہایت سلیقہ مند اور نرم مزاج آدمی ہیں ان کے مطابق
کتابوں پر خرچ ہونے والے پیسے خرچہ نہیں
بلکہ پوری زندگی کے لیئے سرمایہ کاری ہے
س آپ کتنے سال سے اس لائبریری کو چلارہے ہیں اور آپ کیا دیکھے ہیں لوگوں کے زوق میں اضافہ ہوا ہے یاکمی؟
ج یہ لائبریری میرے والد مرحوم نے شروع کی اور اس کو تقریباً بیس سال ہو چکے ہیں اور جہاں تک زوق کی بات ہے تو میں کہوں گا کہ اس میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔ آج سے تقریباً دس سال پہلے لوگ کتامیں پڑھ کے بے حد شوقین تھے اور پنا ہر ہر پیسہ کتابوں پر خرچ کردیا کرتے تھے۔
س اس لائبریری میں آپ کے پاس کتنی کتابیں اور زیادہ تر کاموضود کیا ہے؟
ج ہمارے پاس اس لائبریری میں تقریباً 5000کتابیں ہیں جو مختلف موضوعات پر لکھی گئی ہیں جن میں زیادہ تر کاموضو ع سائنس ہے اور اس کے علاوہ کہانیاں ، ناول، رسالے اور ڈائجسٹ بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔



س آپ کتابیں گھروں کی تعداد اور لوگوں کے شوق کے بارے میں کیا کہیں گے؟
ج دیکھیں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور میں دوسرے زلائع کی وجہ سے کتاب گھروں اور کتابوں کی اہمیت میں کمی واقع ہوئی ہے ۔ لیکن ایک خاص طبقہ ابھی بھی کتابوں سے بے انتہا د لگاﺅ رکھتا ہے۔ اور ان میں سے کچھ کم سے کم 5سفحے پڑھے بغیر اپنے دن کو مکمل نہیں سمجھتے۔
س کس موضوع پرلوگ آپ سے کتابیں زیادہ طلب کرتے ہیں؟
ج دیکھیں جہاں تک موضوع کی بات ہے اس پر ہر عمر کے افراد اپنا خاص زوق رکھتے ہیں ۔ بڑی عمر کے افراد زیادہ تر سیاسی اور معاشرتی پر لکھی جانے والی کتابیں طلب کرتے ہیں ۔ جو ان زیادہ تر سائنسی کتابیں اور بچوں کو کہانیاں پسند ہوتی ہیں ۔ عورتیں اور لڑکیاں زیادہ تر ناول اور ڈائجسٹ پڑھنا پسند کرتی ہیں۔
س کتابیں انسان کی دوست ہوتی ہیں آپ کیا کہتے ہیں؟
ج جی واقعی کتابیں انسان کی بہترین دولت ہوتی ہیں اور اپنی پڑھنے والوں کو تنہائی میں بھی محدود کرتی ہیں۔
س اس لائبریری سے آپکی ماہانہ کتنی آمدنی ہوجاتی ہے؟
ج جی اس لائبریری سے بہت زیادہ نہیں تقریباً 12سے 15ہزار تک آمدنی ہوجاتی ہے۔
س کچھ لوگوں کا کہنا ہے لائبریرین ایک بورنگ (Boring Job)ہے۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
ج نہیں ایسا تو کچھ نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسی جاب (Job)ہے جو آپکو روز روز تعلیم یا فتہ بنارہی ہوتی ہے۔ البتہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ لائبریرین خاموش طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔ کیونکہ خاموشی لائبریری کا ایک بنیادی اصول بھی ہے۔
س آپ اگلے دس سالوں میں کتابیں گھروں کا مستقبل کیا دیکھئے ہیں۔
ج موجودہ دور میں ٹیکنا لوجی بہت تیز ہوگئی ہے اور انسان کی معلومات کے زرائع وسیع ہوگئے ہیں آپ زیادہ تر لوگ انٹرنیٹ کا استعمال کرکے ہر طرح کی معلومات حاصل کرلیتے ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں ہر بندہ اس خرچ کو برداشت نہیں کرسکتا اور وہ معلومات حاصل کرنے کا زریعہ کتاب ہی کو سمجھتا ہے۔ لیکن میں یہ کہوں کا کہ یہ ختم نہیں ہو سکتے کیوںکہ یہ ایسی جگہ ہے جہاں انسان اور کتاب کے درمیان کوئی نہیں ہوتا۔
س آپ اپنے پڑھنے والوں کو کتابوں کے بارے میں کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
ج میں پڑھنے والوں کو یہ کہنا چاہوں گا کہ کتابیں انسان کی بہترین دولت ہیں اور دنیا میں جتنے بھی عظیم لوگ آئے۔ جنہوں نے اپنے ملک اور اپنی قوم کی خدمتکی یا دنیا کو اپنی تحقیق سے نوازا یہ سب لوگ کتابوں سے بے پناہ محبت رکھتے تھے۔ اور اس محبت نے ہی انہیں کامیاب انسان بنایا اور دنیا میں جتنی بھی جدّت آجائے کتابوں کی اہمیت باقی رہے گی۔

Interview with Porf Rafiq Qureshi by Tahira jabeen



 بہت کمزور انٹرویو ہے۔ صرف خانہ پوری کی گئی ہے۔ کوئی ہوم ورک نہیں۔ 
 پروفیسر محمد رفیق قریشی

طاہرہ جبیں
یہاں پر آپ اپنا نام ( اردو میں)، رول نمبر اور کلاس لکھیں۔ یہ بھی کہ یہ انٹرویو ہے، پروفائل ہے؟ کیا چیز ہے۔ 
 انٹرویو، پروفائیل اور فیچر کے لئے فوٹو ضروری ہے ۔
 سوالات اور جوابات بہت ہلکے ہیں۔ ان سوالات اور جوابات سے کسی کو دلچسپی نہیں۔ 
 کمپوزنگ میں الفاظ کے درمیان اسپیس زیادہ ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سب تعارف میں آنا چاہئے۔
س: سب پہلے تو آپ اپنا تعارف کروائیں؟
ج: میرا نام محمد رفیق قریشی ہے۔ میں ایک ریٹائرڈ پروفیسر ہوں گورنمنٹ ڈگری سائنس کالج ملیر کراچی کا۔

س: آ پ اپنی تعلیم کے بارے میں کچھ بتائیں؟
ج: میں نے اپنی ابتدائی تعلیم حیدرآباد سے مکمل کی اسکے بعد BSC مکمل کیا گورنمنٹ ڈگری کالج حیدرآباد سے پھر 1975ء میں سندھ یونیورسٹی کے زولوجی ڈیپارٹمنٹ میں MSC کیلئے داخلہ لیا۔ MSC کے نتائج آنے سے پہلے ہی مجھے پبلک اسکول حیدرآباد میں ٹیچنگ شروع کی، نتائج آنے کے بعد مجھے گورنمنٹ ڈگری کالج سے ٹیچنگ کی آفر آئی۔ میں نے اس آفر کو قبول کر کے 30 Dec 1976 کو ڈیوٹی جوائن کی۔ اسی دوران میں نے سندھ یونیورسٹی میں LLB میں داخلہ لے لیا اور LLB کی ڈگری 1977 ء میں حاصل کی۔ پھر میں نے 1990ء میں محمدی ہومیو پیتھک کالج کالا بورڈ کراچی سے DHMS کی ڈگری حاصل کی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
س: آپ کو پڑھانے کا شوق شروع سے تھا یا یہ آپ کا پیشہ بن جانے کے بعد آپکو اسکا شوق ہوا؟
 ج: مجھے شروع سے ہی پڑھانے اور پڑھنے کا بہت شوق تھا ۔ مجھے میرے کلاس کے لڑکے پروفیسر کہ کر پکارتے تھے۔حلانکہ میں صرف دسویں کلاس میں تھا۔

س: آپکا انداز کیسا ہے پڑھانے کا؟
 ج: میں نہ زیادہ سخت ہوں نہ زیادہ نرم، میں چاہتا ہوں کہ میرے پاس جو بھی شاگرد آئے وہ مجھ سے کچھ سیکھ کر جائے۔ میرا پڑھانے کا طریقہ کچھ ایسا ہے کہ میں پریکٹیکل کے وقت شاگردوں کا گروپ بنا ویا کرتا تھا۔ گروپ میں بلا کر انھیں پریکٹیکل سمجھایا کرتا تھا، ایک گروپ مکمل کرنے کے بعد دوسرے کو بلاتا اس طرح ہر کسی کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔

س: آپ کالج میں پڑھانے کے علاوہ پرائیوٹ ٹیوشن بھی پڑھاتے تھے؟
 ج:جی ہاں، میں کالج میں پڑھانے کے علاوہ فارغ اوقات میں ٹیوشن بھی پڑھایا کرتا تھا۔

س: آپ کو اس شعبہ میں آنے میں کتنا وقت لگا؟
 ج: مجھے ذیادہ وقت نہیں لگا دیکھا جائے تو ایک طریقے سے میں نے اپنی پڑھائی بھی مکمل نہیں کی تھی کہ مجھے ایک استاد بننے کا شرف حاصل ہوا۔

س: آپ نے اس شعبے میں کر کیا سیکھا اور کیا سکھایا؟
 ج:ایک اچھا استاد وہی ہوتا ہے جو پہلے خود سیکھے پھر اپنے شاگرد وں کو سیکھائے۔ میں پہلے خود رات میں ان لیکچر کی تیاری کرتا تھا جو میں نے اگلے دن دینے ہوتے تھے۔
میں نے اپنے شاگردوں سے مختلف قسم کی بولیا ں سیکھی۔ اسکے علاوہ میں نے اپنے شاگردوں کو پڑھانے کی وجہ سے خالص اردو سیکھنے کا فائدہ حاصل کیا۔

س: آپ زولوجی کے علاوہ اور کون کون سے مضمون پڑھا رہے تھے؟
 ج: میں نے پبلک اسکول حیدرآباد میں اسلامیات کے علاوہ تمام مضمون پڑھائے ہیں، اور گورنمنٹ ڈگری کالج ملیر کراچی میں زولوجی کے پروفیسر ہونے کے باوجود پروفیسر کی غیر موجودگی میں کبھی کیمسٹری تو کبھی بایولوجی تو کبھی انگلش وغیرہ بھی پڑھائے ہیں۔
س: آپکا اس شعبے میں سب سے بڑا تجربہ کیا رہا؟

 ج:سب سے پہلا میرا بڑا تجربہ جب تھا جب مجھے 07 Oct 2010 میں پروفیسر سے پرنسپل کے عہدے پر فائز کیا گیا کیوں کہ میرے نیچے کے طبقے کے لوگ رشوت خوری میں مبتلا تھے اور مجھ پر پریشر ڈالا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے میں نے 07 Jan 2011 کو اپنے عہدے سے استعفٰہ دے دےا۔
دوسرا بڑا تجربہ میرا یہ رہا کہ مجھے اپنی P.H.D جو کہ میں نے ایک سال تک پڑھی تھی مجھے اسی نوکری کی وجہ سے چھورنی پڑی۔

س: آپ نئی نسل کے طلبہ طالبات کو کیا نصیحت کرنا چاہے گے؟
 ج: ہر چیز جس میں آپ کامیابی چاہتے ہیں اسکے لیے محنت بے حد ضروری ہے۔اگر آپ امتحانات میں کامیابی چاہتے ہیں تو اسکے لیے بھی محنت سے پڑھنا ضروری ہے۔ نکل کر کے ڈگری تو حاصل کی جا سکتی ہے پر علم نہیں۔ اس لیے آپکو اس بات کو غور نظر لانے کی ضرورت ہے کہ نکل سے پاس نہ ہو کر اپنی پڑھا ئی پر توجہ دیں اور خود کو اتنا قابل بنائے کو آگے آنے والی نسلوں کیلئے عبرت کا نشان بن سکے۔
نومبر 2015
Tahira jabeen (2k13/MC/98)

Saturday 7 November 2015

Saifal Malook jheel by Simra

[ Good. particularly compare and contrast with Sindh's lakes, this has localised it.attribution is missing. talk with people, shopkeepers, hotel owners, visitors etc, this would prove ur presence and visit of the lake. OR some quotes from famous travelogue.]

Saifal Malook jheel by Simrah Shaikh
             جھیل سیف الملوک

 فیچر تحریر: سمرہ شیخ

پانی جہاں بھی ہوتا ہے وہ پیا ر، محبت اور ثقافت کو جنم دیتا ہے۔ چاہے برفانی علاقہ ہویا ویران پہاڑ۔ جھیل سیف الموک10,600 فٹ کی بلندی پہ وادی کاغان میں واقع ہے جو عظیم ہمالیہ کے پہاڑی سلسلہ کا حصہ ہے۔یہ پاکستان کی تمام جھیلوں میں انتہائی خوبصورت، حسین، دلچسپ اور تسکین پسند جگہ ہے۔اس جھیل کی پہلی واضح خوبصورتییہاں کے پہاڑ ہیں جو برف کی اوڑھنیوں سے چھپے ہوئے ہیں۔اس جھیل کا نام مصر کے شہزادے ”سیف“ پر رکھا گیاتھا۔ سیف بہت خوبصورت لڑکا تھا اور یہ جھیل سیف اور اس کی محبوبہ بدرالجمال جو ایک پری تھی ان کی کہانی سے اور یہاں کی حسین وادیوں سے جھیل سیف الملوک بہت مشہور ہے۔
 پریوں کے قصے صرف کوہ قاف کے جبلوں تک ہی محدود نہیں ۔ سندھ کے کھیرتھر کی پہاڑیوں میں واقعہ تاریخی قلعہ رنی کوٹ میں بھی ایک چشمہ بہتا ہے، اس کے لئے بھی کہا جاتا ہے کہ اس چسمے کے تالاب میں چاند کی چودھویں کو پریاں اتری ہیں۔ اس تالاب کا نام ہی پریوں کا تالاب رکھا گیا ہے۔ 

  بات گلگت بلتستان کی ہو یا سندھ کی۔ یہاں کینجھرجھیل بھی بلکل جھیل سیف الملوک سے ملتی جلتی ہے۔اس جھیل کی گہرائی8 میٹر، لمبائی24کلو میٹر، 6 کلو میٹرچوڑائی ہے اوریہ جھیل کل 13,468رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ کینجھر جھیل ٹھٹھ سے22کلو میٹرکے فصلے پر واقع ہے۔ کینجھر جھیل کی مثال بھی جھیل سیف الملوک جیسی ہے یہاں بھی ایک شہزادے ”جام تماچی“کی محبت ”نوری“ سے ہوئی جو ایک مچھیرن تھی۔ کینجھر جھیل دو جھیلوں سے مل کر بنی ہے اور یہ پاکستان کی دوسری بڑی جھیل ہے جس سے لوگوں کو پینے کا تازہ پانی فراہم کیا جاتا ہے۔عام جھیلوں سے کینجھر جھیل کا پانی نیلاہے اور یہ بھی ایک خوبصورت جگہ ہے اس جھیل کے بیچ میں نوری جام تماچی کی قبر موجود ہے۔

 کینجھر جھیل اب ٹھٹھ، حیدرآباد اورکراچی کے لوگوں کے لیے تفریح گا ہ بنا ہوا ہے اور جھیل سیف الملوک پر ملک بھر سے لوگ یہاں پر گھومنے آتے ہیں اور سیف اور بدرالجمال کی کہانی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ چاند کی جب چودھویں تاریخ ہوتی ہے۔
 تویہاں پریاں اترتی ہیں اور چاند جیسے جھیل پراک flash light کی طرح روشنی دے رہا ہوتا ہے اور جھیل ایک آہینہ کی مانند نظرآتی ہے جو پہاڑوں کی خوب صورتی کے عکس کو چارچاند لگادیتی ہے،آسمان پر ستارے چمکتے رہتے ہیں ۔جھیل سیف الملوک صرف خوب صورت ہی نہیں بلکہ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ یہ روحانی خوب صورتی ہے جو اب تک ہر چیز کی حقیقت کو واضح کررہی ہے۔ 



 قریبی قصبہ ناران سے بذریعہ جیپ یا پیدل اس خوبصورت جھیل تک پہنچا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اس دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ ملکہ پربت اور دوسرے پہاڑوں کا عکس اس میں پڑتا ہے۔ سال کے کچھ مہینے اس کی سطح برف سے جمی رہتی ہے۔

 نالوں، جھیلوں، آبشاروں، چشموں اور گلیشیئروں کی یہ وادی موسم گرما (مئی تا ستمبر) میں سیاحوں کی منتظر رہتی ہے۔ مئی میں یہاں کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 11 اور کم از کم 3 درجہ سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ جولائی کے وسط سے ستمبر کے اختتام تک ناران سے درہ بابوسر کا راستہ کھلا رہتا ہے۔ برسات اور موسم سرما میں وادی میں نقل و حمل مشکل ہو جاتی ہے۔ اس حسین وادی تک بالاکوٹ، ایبٹ آباد اور مانسہرہ سے باآسانی رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ بالاکوٹ سے با آسانی بسوں یا دیگر ذرائع نقل و حمل سے کاغان یا ناران پہنچا جا سکتا ہے۔ بالاکوٹ سے ناران تک کے تمام راستے میں دریائے کنہار ساتھ ساتھ بہتا رہتا ہے اور حسین جنگلات اور پہاڑ دعوت نظارہ دیتے رہتے ہیں۔

   کاغان سے جھیل سیف الملوک کا راستہ1گھنٹہ کا ہے ۔لوگ پرائیوٹ ٹرانسپورٹ کے ذریعے جاتے ہیںاور وہاں صرف جیپ کے علاوہ اور کوئی بھی گاڑی نہیں جاسکتی کیوںکہ جھیل تک پوچھنے کا راستہ پتھریلااور دشوار ہے۔ایک طرف پتھریلاراستہ اور دوسری طرف کھائی ہے ۔کاغان اور جھیل سیف الملوک کے بیچ میں”لالازار“پوائنٹ پڑتا ہے اور اس جگہ سے بھی سیاح لطف اندوز ہوتے ہیں۔جھیل سیف الملوک پوچھنے پر وہاںبہت سارے کھانے پینے کے اسٹالز ہیں ،کچھ لوگ وہاںcamphingکرنے کے لیے رکتے ہیں ۔بچوںکے لیے جھولے اور پارک بھی ہیں۔جھیل میں کشتیاں بھی چلائی جاتی ہیں اور سیاح اس کے ذریعے دوسرے کنارے تک چلے جاتے ہیںاور بہت لطف اٹھاتے ہیں۔جھیل پہ سیاحوں کی آمد سے وہاں کے مقامی لوگوں کاروزگار چل رہا ہے اور اس جھیل کی خوب صورتی اور اس سے مشہور رومانوی اور روحانی د استان دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کا مرکزبنی ہوئی ہے۔

MC/93 SIMRA NASIR
These fotos are used only for academic purpose
This practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi

Fatima Javed Kamal feature

Referred back  
2K/14/MC/26 FATIMA JAVED
فاطمہ جاوید 
حیدرآباد کی مجموعی آبادی 25لاکھ کے قریب ہے جس میں سے00.07فیصد لوگ شہری علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔کراچی کے بعد زیادہ زیادہ شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے عوام کا دوسرے نمبر پر شہر کراچی سے حیدرآباد میں کافی عرصہ قبل تفریح کے لیے کئی پبلک پارک بنائے تھے جن کی تعداد اچھی خاص تھی ۔
جن میں گل سینٹر کے قریب پریم پارک گول بلڈنگ پر پر رام داس پارک پلکے قلعے کے قریب ہوم اسٹیڈیم پارک ، تین نمبر تالاب پر مکھی کا باغ ، گرو کے گروپارک ، نور محل سینیما کے قریب شام داس پارک ، کالی موری کے قریب ڈھانن داس پارک ، پھلیلی کے قریب دلشاد پارک اور تروٹ پارک وغیرہ ۔
جیسے پارک لوگوں کی تفریح کا مرکز ہوا کرتے تھے ۔مگر اب ان پارک کا نام و نشان تک باقی نہ رہا ۔ اب وہ لوگ پچیس ہیں جو ان جگہوں کے بارے میں معلومات فراہم کرسکے ۔ یہ تمام تر مقامات اپنے وقت کے بہترین انتظامات اور مکمل تفریح سے مزین تھے ۔ پارک لوگوں کی سیرو تفریح کے لیئے بنائے گئے تھے ۔ لوگوں کو سستی اور اچھی تفریح فراہم کرنے کے لیئے پارک کھولا گیا تھا ۔
اب ان جگہوں پر کہی شاپنگ سینٹر تو کہی رہا ئشی پلازہ تعمیر کر دیئے گئے ہیں حٰدرآباد نورانی بستی میں 2009کے بعد مصطفیٰ پارک کے نام سے ایل فیملی پارک حیدرآباد میں کچھ عرصہ قبل نیو حیدرآباد ستی بھی تفریحی لحاظ سے اپنے عروج پر تھا ۔
مگر حکومت وقت غفلت اور مقول حفاظتی انتظامات نہ ہو نے کی وجہ سے مختلف قسم کے باعث بند کر دیا گیا ۔
اس پارک کا مالک کو چر بھٹی تھے ۔ جنہوں نے اپنے ذات خرچے سے اس پارک کا قیام کیا تھا ۔ 
پل پارک بھی زبوں حامی کا شکار ہے ۔ وہاں تفریح کے لحاظ سے کسی قسم کی سہو لیات موجود نہیں ہیں 
لوگوں کا کہنا ہے کہ حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے اور اس شہر میں تفریح کے لئے کوئی خاص انتظامات اور تفریح کے لئے کوئی خاص انتظامات اور تفریح جگہیں موجود نہٰن ہیں پہلے کے دورمیں پارک موجود تھیں ۔مگر اب ان میں سے کچھ باقی نہیں رہے ۔
اور جو ہیں وہ بھی انتظامیہ کی غفلت کے باعث خترم ہو تے جا رہے ہیں ۔ عید کے دنوںں میں لوگ پارک وغیرہ میں بچوں کو لے کر ان کی خوشیاں دوبالا کرتے تھے۔
مگر اب موجود وقت میں ایسی جگہوں کی کمی کے باعث لوگ گھروں تک محدود ہو کر رہ گئے 
پارک لوگوں کی تفریح کے لیئے ایک اہم مرکز ہوتا ہے ۔ لوگ سیرو تفریح کے لئے پارک میں آتے ہیں لطف اندوز ہوتے ہیں پارک دیکھنے میں ضوبصورت اور اچھا منظر پیش کرتے ہیں ۔ پارک میں بچوں کے لیئے چھوٹے چھوٹے جھولے ہوتے ہیں ۔ چڑیا گھر بھی ہوتا ہے بچوں کے لئے اس میں عمدہ اور اعلیٰ قسم کے اور نایاب جانور ہوتے ہیں ۔ گارڈن ہوتا ہے اور کھانے پینے کی چیزوں کے اسٹول لگے ہوئے ہو تے ہیں جو کہ دل کش منظر پیش کر رہے ہو تے ہیں اکثر لوگ ٹائم پاس کے لیئے پارکوں کا رخ کرتے ہیں ۔
پارک لوگوں کی توجہ کا مرکز رہے چکے ہیں 
پارک ایک کھلی فضاﺅں کا تاثر دیتے ہیں انسان اپنے آپ کو ترو تازہ اور اچھا محسوس کرتے ہیں پارک اچھا ماحول انسان کو منا یا کرتے ہیں ۔
پارک لوگوں کی تفریح کے لیئے ایک اچھی جگہ ہو تی ہے لوگ کسی موقعوں پر یا خوشی کے موقعوں پر پارکوں کا رخ کرتے ہیں موسم سہانا ہوتو مزہ دوبالا ہوجاتا ہے ۔
پارک انسان کو پاکیزہ آلودگی فراہم کرتے ہیں اور پارک بھی بننے چاہیے ۔صفائی اور ستھرائی کا خاص انتظام ہونا چاہیئے ۔ پارکوں کی دیکھ بھال کرنی چاہیء۔
پارک تفریح کے لئے ایک اچھی جگہ ہو تی ہے 
پارک ہمارے ماحول کو آلودہ ہونے سے بچاتے ہیں ۔
پارکوں کے اندر جو سوئمنگ پول ہوتے ہیں وہ صائی نہ ہونے کی وجہ سے تالاب کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں ۔صفائی کا کوئی خاص انتظام نہیں ہوتا ۔ اس لیئے لوگوں نے پارکوں کا رخ کرنا چھوڑ دیا ہے ۔
حکومت کی غفلت کے باعث یہ سب کچھ ہوا ۔ ہماری حکومت سے اپیل ہے کہ ان پارکوں کے لیئے کچھ اچھے اور بہتر اقدامات کیئے جائیں ۔


Not according to approved topic. approved topic was 
HYDERABAD NEW CITY PARK
U have discussed over all parks of the city. We need specific  about New city park. Intro is not according to the feature. feature should be reporting based.

Dr Farah baloch Interview by Shahbaz Shafi

 Dr Farah baloch Interview by Shahbaz Shafi
Interview Assignment
                                                            شہباز شفيع
                                                              2k14/MC/90
تحارف
هڪ ڀلوڙ ليکڪا ۽ استاد ڊاڪٽر فرح بلوچ 1 آگسٽ 1966ع تي شڪارپور ضلعي ۾ جنم ورتو پاڻ پنهنجي شروعاتي تعليم ڳوٺ جي پرائمري اسڪول مان حاصل ڪئي مئٽرڪ ۽ انٽر شڪارپور مان ڪئي پوءِ بي اي آٽس ۽ (ايم اي سنڌي) سنڌ يونيورسٽي مان حاصل لئي ۽ پاڻ پي ايڇ ڊي جي ڊگري ڪراچي يونيورسٽي مان حاصل ڪئي ميڊم هينئر سنڌ يونيورسٽي جي سنڌي ڊپارٽمنٽ ۾ ليڪچرار طور سندس خدمتون سر انجام ڏئي رهي آهي.

سوال (1)    سنڌي شعبي ڏانهن اچڻ اوهانجو شوق هيو يا اتفاق؟
جواب        سنڌي ادب سان لڳاءُ شروع کان ئي هيو پوءِ اهو لڳاءُ ڏينهون ڏينهون وڌندڌ ويو ۽ انهي شوق جي ڪري (ايم اي سنڌي) ڪئي ۽ ڪراچي يونيورسٽي مان پي ايچ ڊي ڪئي.

سوال (2)     ادب يا شاعري جي حوالي سان اوهان وٽ ڪاريسرچ هلي رهي آهي؟
جواب         اد يا شاعري جي حوالي سان اسان وٽ ڪاخصوصي ريسرچ ته نه هلي رهي آهي پرجيڪي (ايم جل ۽ پي ايڇ ڊي) جا شاگرد مختلف ٽاپڪن تي ريسرچ ڪري رهيا.

سوال (3)      هڪ استاد جون علمي ۽ ادبي ڪهڙيون ذميواريون آهن؟
جواب     جيئن ته توهان ٻڌو هوندو ته استاد هڪ روحاني پيءَ آهي استاد شاگرد جي تعليم ڏيڻ سان گڏوگڏ ۽ انهي جي تربيت به ڪري ۽ جيستائين علم ۽ ادب سان شوق نه هوندو ته اهو استاد ئي نه چورائيندو.

سوال (4)       اوهان جي نظر ۾ قومن جي واڌ ويجھ ۽ ترقي لاٰ ادب ۽ ٻولي جو ڪهڙو ڪدار آهي؟
جواب    ٻولي هڪ خيالن جو اظهار آهي ۽ ھميشه اها قوم ترقي ڪندي آهي جنهن جي ٻولي تاحيات جيئري هجي نه صرف ٻولي پر ادب ڇو جو ٻولي ۽ ادب ٻه ڦيٿا آهن جن جو گڏ هلڻ نهايت ئي ضروري آهي ڪنهن به قوم جي ترقي ۽ واڌ ويجھ 
جي لاءِ


سوال (5)   ڪهاڻي ڇا آهي ۽ هن وقت ڪهاڻي گهٽ ڇپجڻ جا سبب ڪهِا آهن؟
جواب     ڪهاڻي ٿيندي آهي پڙهڻ سان هينئر ونجوانن ۾ پڙهڻ وارو خيال تمام  گهٽ جي ويو آهي ۽ انهي جي لاءِ ڪهاڻي لکڻ ڏانهن به توجھ گهٽ جي وئي آهي.

سوال (6)   هن وقت سنڌي ڊرامن ۾ رڳو هٿيارن جي ويڙھ ڏيکاري ٿي وڃي انهي حوالي سان توهان جي ڇا عاءِ آهي؟
جواب    اسانجو ڪلچر هٿيارن وارو هرگز ناهي الائجي ڇو اهي ٽي وي پينل وارا اهو ڪلچر پيا ڏيکارين ائين ٿي سگهي ٿو ته ڏسڻ وارا ان ناهي رڳو هٿيارنه ٿا پيکاريا وڃن ان سا گڏ اسان جو ڳوٺاڻو ڪلچر ۽ شهري ڪلچر به آهي پر اها ڳالھ ضروري آهي ته هٿيارن واري ڪلچر کي فوڪس نه ڪيو وڃي ان بدران اسانجي سنڌ جي تاريخ ڳوٺاڻي زندگي، ٿري ڪلچر، وچولي طبقي جون گهريلوڪهاڻيون، رومنس، يونيورسٽي وارو ماحول، گهريلو مسئلا، اسڪول جا مسئلا جيڪا اڄ ڪلھ ڳوٺاڻي ڪلچر جو حصو آهن سنڌي چينل اسانجي سنڌي ڪلچر جو آئينو آهن ۽ ڏسڻ وارو آئينو ضرور ڏسندو آهي ۽هميشه سٺو ڏسڻ سان اسان ۾ سٺيون خوبيون اينديون ۽ ذهن سٺو سوچيندو.

سوال (7)   موجوده حالتن ۾ اوهان سنڌي ٻولي تي ڪهڙا خطرا محسوس ڪري رهيا آهيو؟
جواب  منهنجي خيال ۾ سنڌي ٻولي کي سڀ کان وڌيڪ خطرو سنڌي ماڻهن مان آهي ڇوجو اسانجي قوم ۾ هينئر نقسانقسي وڌي رهي آهي ۽ حسب واري رجهان ۾ اضافو ٿيندو پيو وڃي.


سوال (8)       سنڌي ٻولي جي بچاءِ لاءِ ڪهڙا قدم کنيا وڃن؟
جواب     آئون ان لاءِ رڳو اهو چوندس ته ٻيو ڪجھ نه پر هر سنڌي رڳو پنهنجي گهر ۾ سنڏي ٻولي ڳالهائي ته به تمام سٺو.

سوال (9)      هن وقت نوجوان نسل جو ادب ڏانهن گهٽ لاڙو هجڻ جو سبب؟
جواب    هن وقت نوجوان جو ادب کان علاڳه ڪتابن کان به دلچسپي ڪونهي جنهن جا گهڻائي سبب ٿي سگهن ٿا پر هن جديد دؤر ۾ جديد ٽيڪنالاجي جو استعمال ۽ سوشل ميديا ڏانهن وڌندڙ رجهان انهي شي اسان جي ادب کي ڌاڍو دک پهچايو آهي.

سر: سهيل سانگي     

Friday 6 November 2015

Jamal SHah Interview by Mohammad Hassan Samoon

Photo is required
Sir this interview assignment I already submit in hard copy but you say that send it into soft copy.
Interview Assignment
                                                         محمد حسن سمون                                                             2k14/MC/53 
سيد جمال محمد شاھ رضوي
                            (ڳوٺ غلام نبي شاھ جومالڪ)
ضلعي عمرڪوٽ جي ننڍڙي ڳوٺ غلام نبي شاھ جي وارس سيد جمال محمد شاھ رضوي جيڪو سيد خاندان سان واسطو رکي ٿو جنھن جوجنم 1961 ۾ پنھنجي ئي ڳوٺ غلام نبي شاھ ۾ سيد دامن علي شاھ جي گهر ۾ ٿيو جيڪو سندس والد صحاب آهي.هن پنهنجي شروعاتي تعليم پنهنجي ئي ڳوٺ غلام نبي شاھ جي مين پرائمري اسڪول غلام نبي شاھ مان حاصل ڪئي ان کان پوءِ عمرڪوٽ هائي اسڪول_ 1 ۾ميٽرڪ مڪمل ڪيو. وڌيڪ تعليم حاصل ڪري نه سگهيو ڪجھ خانداني مسئلن جي ڪري پر هاڻي هوُ ڳوٺ ۾زمينداري ۽ ڳوٺ جي مالڪ جي حيثيت سان ڳوٺ جي ماڻهن جي مسئلن کي سلجهائڻ ۾اهم ڪردار ادا ڪندو آهي.
سوال (1)    اوهان اڳتي تعليم ڇونه حاصل ڪري سگهيا؟ وجهه؟
جواب        مون ميٽرڪ مڪمل ڪرڻ کان پوءِ مسلم ڪاليج حيدرآباد مان ميڊيڪل گروپ ۾ داخلا ورتي اڃان فرسٽ ائير مڪمل ئي نه ٿيو هيو ته بابا صاحب جي وفات ٿي وئي ۽ آئون پنهنجي تعليم اڌ ۾ ڇڏي واپس ڳوٺ ۾ اچي بابا جي رهيل زمين جي سار سنڀال لهڻ لڳس ڇاڪاڻ ته منهنجو ٻيو ڪو ڀاءُ نه هيو ان ڪري مون پنهنجي تعليم اڌ ۾ ڇڏي ڏني.
سوال (2)    اوهان کي ننڍپڻ ۾ ڇا ٿيڻ جو شوق هو ۽ ڇو؟
جواب       جيئن ته مون پيري ئي ٻڌايو هو ته مون ميڊيڪل گروپ ۾ ايڊميشن ورتي هئي اهو انهي ڪري ته مون کي ڊاڪٽر ٿيڻ جو شوق هيو ۽ منهنجو خيال هو ته ڊاڪٽر ٿي ماڻهن جي خدمت ڪريان پر بابا صاحب جي وفات جي ڪري شوق پورو نه ٿي سگھيو پر هڪ ڊاڪٽر جي حيثيت نه پر ڳوٺ جي مالڪ جي حيثيت سان آئون ڪوشش ڪندس ته ڪجھ ڀلو ڪريان.
سوال (3)   هن ڳوٺ جي تاريخ جي حوالي سان اسان کي ڪجھ ٻڌايو؟
جواب      جيئن ته مون کي هن ڳوٺ جي تاريخ جي اتيري ڄاڻ نه آهي پر ڪجھ وڏن کان ٻڌل آهي ته هي ڳوٺ تمام پراڻو آهي، اسان جا وڏا جڏهن اتي آيا ته هي سڄو جهنگ هيو ۽ هتي ڪارو علم وغيره ٿيندو هيو. اسان جا وڏا جڏهن اتي آيا ته انهن سان گڏ جي قوم ميان به هيا ۽ ڪنڀر به هيا ۽ اسان پهين رهائش اتي لئي جتي هينئر غلام نبي شاھ جي عيد گاھ آهي. بعد ۾ انهن جهگلي ماڻهن سان مقابلو ٿيو انهن کي نيٺ ڀڄائي ڪڍيو ويو بعد ۾ اسان سيد اتي انهي ڳوٺ ۾ رهيا سين ۽ ميان وڃي کنڀري ۾ رهيا. ڪجھ ڪنڀر اسان سان گڏ رهيا ۽ ڪجھ ميان سان گڏ وڃي کنڀري لڏي ويا  جيڪي اڃان تائين اتي کنڀري ۾ رهن پيا. ۽ اسان سان گڏ رهندڙ ڪنڀر به اڃان تائين اتي موجود آهن. بعد ۾ آهستي آهستي ٻيون ذاتيون به انيديون ويون ۽ اهڙي نموني پورو جهنگ هڪ آباد ڳوٺ ۾ تبديل ٿي ويو.
سوال (4)     هن ڳوٺ تي غلام نبي شاھ جو نالو ڪيئن پيو؟
جواب         غلام نبي شاھ منهنجي پڙ ڏاڏي جو نالو آهي جيڪو پهرين پهرين هن ڳوٺ ۾ آيو هيو تنهن ڪري هن ڳوٺ جو نالو به ان جي نالي جي ڪري غلام نبي شاھ رکيو ويو.
سوال (5)     هڪ ڳوٺ ۾ ڳوٺ جي مالڪ جو ڇا ڪردار هوندو آهي؟
جواب         ڳوٺ جي مالڪ جو اصل ۾ اهم ڪردار اهو هوندو آهي ته هو ڳوٺ جي لاءِ ڪجھ ڪرڻ جو سوچي هر لحاظ کان ۽ ڳوٺ ۾ ٿيندڙ مسئلن کي سلجهائڻ جي ڪوشش ڪري.
سوال (6)     ڳوٺن جا ڪهڙا مسئلا آهن؟
جواب         ڳوٺن ۾ ڏٺو وڃي ته سڀ کان پهرين جيڪو وڏو مسئلو آهي اهو آهي صحت ۽ تعليم جو اگر هو بهتر ٿي وڃي ته اهڙا ٻيا مسئلا ٿيندا ئي ڪونه. منهنجي نظر ۾ ته هڪ ڳوٺ ۾ اگر سٺو صحت  جو مرڪز هجي جتي غريبن لاءِ ڪجھ سهولت هجي ننڍين ننڍين بيمارين جي حوالي سان ۽ تعليم جي لحاظ کان ته هڪ ڳوٺ ۾ تعليم جي ايتري سهولت هجڻ کپي جو هر ڪو غريب توڙي امير پنهنجي شروعاتي تعليم اتان ڳوٺ مان حاصل ڪري سگهي ڇو ته امير ماڻهو ته ٻي شهر ۾ به تعليم حاصل ڪري وٺندو پر غريب ڪٿان حاصل ڪندو، صرف ايترو هجڻ کپي وڌيڪ ڀلي نه ته غريب توڙي امير پنهجي شروعاتي تعليم ڳوٺ ۾ حاصل ڪري.
سوال (7)         انهي کان علاوه ٻيا ڪهڙا مسئلا آهن ڳوٺ ۾؟
جواب             ٻيا مسئلا ته ڳوٺ ۾ سٺو نظام هجڻ کپي روڊ رستن جي حوالي ته آمد رفت  ٿئي ماڻهو اگر ٻي هنڌ وڃن ته انهن کي پريشان ٿيڻو نه پوي.
سوال (8)         اهڙا به مسئلا هوندا آهن ته ڪن ٻن ڌرين ۾ جهيڙو يا تڪرار جي حوالي سان؟
جواب            ها اهڙا به مسئلا ڪافي سارا سامهون اچي چڪا آهن جيڪي ڪنهن ننڍي ڳالھ تي جهيڙي يا تڪرار جي شڪل ٿي وڃن ٿا.
سوال (9)         انهن مسئن کي حل ڪرڻ ۾ ڪير 
 Role play ڪندو آهي؟
جواب             انهن مسئلن کي حل ڪرڻ ۾ گهڻو تڻو ڳوٺ جو مالڪ ڪندو آهي ڇاڪاڻ ته هي مسئلو هن  جي ئي ڳوٺ ۾ ٿيو آهي ۽ سوچيندو آهي ته هن جي ڪري ٻيا نه ٿين.
سوال (10)        انهي کان علاوه ٻيو ڪير Role play ڪندو آهي؟
جواب             ڳوٺ جي مالڪ کان علاوه ڳوٺ جون معزز شخصحتون به سٺو ڪردار ادا ڪنديون آهن مسئلو حل ڪرڻ ۾.
سوال (11)        ڪو تڪراري جهيڙي وارو مسئلو اوهان جي نظر ۾ ڪيئن حل ڪيو ويندو آهي؟
جواب             آئون اهو چاهيندو آهيان ته ٻئي ڌريون هڪ ٿي وڃن ڇاڪاڻ ته اگر هڪڙي کي صحيح سمجهي ٻي کي ڏوهي ڪيو ويو ته هو ڏوهي دل ۾ ڪندو تنهن ڪري آئون اهو چاهيندو آهيان ته ٻئي ڌريون هن ڪاوڙ يا جهيڙي کي ختم ڪري هڪ تي وڃن ۽ وري ٻيا اهڙا مسئلا نه ٿين اهڙي نموني تقريبن سڀ فيصلا ڪامياب ويا آهن.
سوال (12)        ڪو اهڙو مسئلو جيڪو اوهان کان حل نه ٿيو هجي؟
جواب             نه مون کي اهڙو ڪو مسئلو ياد نه آهي ته مون کي حل ڪرڻ ۾ ڏکيائي ٿي هجي ڇاڪاڻ ته آئون هر مسئلو انهي طريقي سان سلجهائيندو آهيان جيڪو طريقو مون پهرين ٻڌايو ۽ ڪوشش اها هوندي آهي ته ٻئي ڌريون پرچي وڃن هڪ ٿي وڃن.
محمد حسن سمون                                                             
Roll No. 2K14/MC/53                                                                         This practical work was carried under supervision of Sir Sohail Sangi                                                                  

Hyderabad's theft market by Tehniat

Its too short, 600-700 words are required.  Feature is always reporting based means observation, talk with related people. How u say its theft market? what proofs u have? Its purpose is to entertain, so interesting and unique aspects are highlighted. Technically, it does not fall in category of feature. Foto is also must

TEHNIAT KHAN-FEATURE WRITING                                                   2K14/MC/99

HYDERABAD’S THEFT MARKETS
The things you had lost or snatched could be found with an ease in the theft markets. Hyderabad, the fifth largest city of Pakistan is having a wide spread network for such business. Here you can find all kinds of staff according to your wish; thus it may include shoes, used television, smartphones and much more. What so ever you desire will be there in front of your eyes.
Many parts of Hyderabad have such markets placed, but one of the best is at Phuleli near Noorani Basti Pull. This market is held after Jumma Prayer every Friday. Thing you find in these markets are mostly stolen by thugs or it may be snatched. Those people who come to sell these things for a little amount of money are the junk man. Step by step you move forward, people will force you to visit their stall what they have for you. Somehow you might feel awkward and weird with the behavior of those people, they can be rude as well.
While I was looking around for some good items, I met a person who was searching for his lost things. Later on I find, that he was lucky in searching his lost phone. When I asked him the reason for his happiness, I came to know his phones was stolen just two days ago and here he got his own whether he paid money again. Walking around, a man advised me to be careful with my wallet and phones although it a theft market not the common one where we can shop easily.
Sometimes the cops enter the markets to arrest the thugs and shopkeepers ordering them to windup illegal organized markets, whereas it creates a huge trouble in the form of traffic on the roads. The upcoming time, if you ever lost your things or it might got stolen do come to theft markets and easily u can find them here.

Thursday 5 November 2015

Interview of Nadir Khan by Hammad zubair

This was referred back for soft copy
           English needs much improvement. I have pointed out a few. U should read some books etc. Interview topic is very good  as English learning is major problem of youth, but u fail to put proper questions and get  good answer,     
                       
          INTERVIEW: NADIR KHAN GHOURY
       by  HAMMAD ZUBAIR KHAN 2K14/MC/30

NADIR KHAN GHOURY was born on 2 August 1978 in the city LANDHI of Karachi. Firstly He became the teacher of commerce then He selected English as his subject. In 1999, He launched AMERICAN COMMUNICATION COUNCIL CENTER (only first word with cap)under the supervision of his companions(what do want to say). Having got much fame in Karachi (change it make it positive) he launched new branch of A.C.C in Hyderabad for developing (awareness is created not developed) awareness about necessity of English in people of Hyderabad in less expenditures. Sir ( delete sir)Nadir Khan Ghoury was given the best trainer of IELTS Certificate by British Council. He is known as ‘The University of English’ in whole Hyderabad ( This is extra ordinary title, do not use superlative and final verdict type things)).

Q1: How much have you succeeded to make common English Language in Hyderabad as you took this as your mission? ( re-word and simplify also correct the language)
A:   We have worked 10 years ( delete or re-word it ...or more than) in Hyderabad Alhamdulillah. People are getting awareness of English and Education (education is not proper noun, it should be with small )as well. There was countable quantity of English Language centres in Hyderabad 10 years ago, but after stepping in the field of Education to boost up our mission we launched centre. We saw many centres to come (?) in Hyderabad to compete in English Language and this is splendid for our mission.

This question is not relevant as u are talking with him as educator 
Q2: Who is the best Novel writer and poet of English to whom we can study and after studying some sort of real facts of life is seen and we get courage to dominate our difficulties?
A:   Many poets passed in English, but every poet has their own way of thinking and there is always a good quality in every famous poet that how he elaborates, interprets and utilizes his terminologies, and this is the main examination of every poet. When we talk about English poetry, so the resplendent poet SHAKESPEAR (?) is considered as best poet of English because he was expert to interpret his terminologies.

Q3: How can vocabulary be remembered (?) in English? vocb is developed not remembered
A:   The numbers of words in the English Language is 1025109.8 (?) and it is impossible to remember every word in mind, but Vocabulary can easily be remembered when we utilize it in our daily life, but if there is no way to be remembered vocabulary in daily life, so there are bundles ? of ways to be remembered vocabulary. I am going to share one idea of them, you take just one page regularly, and write down 10 words on them and whenever you get spare time, just take this page out from your pocket and try to remember these words by speaking normally and then try to utilize these words in your daily life. This is the best way to remember vocabulary.

Q4: Can English be learnt or spoken by having environment or is there any technique to learn or speak English?
A:   English can be learnt by having environment under the supervision of Teacher, but if there is no one to look after, so there are techniques to learn and speak English and these are following: 1) Speaking. 2) Writing. 3) Listening. 4) Reading. These techniques can be utilized in daily life to become expert in English.

Q5: Some other  steps u have taken for promotion (Delete What kind of more services have you given to make) Education common in Hyderabad?
A:   Firstly, We have launched our centre for the sake of generalizing ? ( for promoting learning of English in Hyderabad, then we got brilliant response from people, then we tried to open complete SCHOOL SYSTEM (why capital? is it proper noun? it is not) and we succeeded. As we were serving to nation of Hyderabad in ENGLISH LANGUAGE FIELD so we wanted to generalize science subjects as well in school system, and as you know that ‘There is a will there is a way’, Alhamdulillah we have been serving Hyderabad since last 10 years or more than. Now we have planned to launch A.C.C COLLEGE and UNIVERSITY as well for generalizing Education for every lower class family and its member completely, and for completing this planning we need 2 years more for opening college, and 10 years for university, and after completing this planning we’ll go for CAREER COUNCILLING of Educated people for showing the path for their best career tips and jobs.

Q6: ( delete Would you like to give, and add) Any message for the people of Hyderabad?
A;   Islamabad is completely 100% literate city of Pakistan. We want to literalize Hyderabad as well completely, because we want to see Hyderabad to compete against big and literate cities in future and in whole process we want you to move with us to make it possible.

ASSIGNED BY SIR SOHAIL SANGI