مصباح۔ار۔رودا : فیچر
غنی پارک کرکٹ ٹورنامنٹ سے مرغوں کی لڑائی تک
2k14/MC/52
Feature: Gani Park Tando Allahyar
غنی پارک کرکٹ ٹورنامنٹ سے مرغوں کی لڑائی تک
ٹنڈوالہیار میں جہاں سیروتفریح کی بات آتی ہے تو لوگوں کی زبان پر غنی پارک کا نام سرفہرست رہتا ہے۔ ویسے تو ہر خوبصورت صبح کا آغاز مرغوں کی آزان, چڑیاؤں کے چہچہانے اور لوگوں کا مسجد کی طرف رخ سے ہوتا ہے۔ لیکن ٹنڈوالہیار کی خواتین اور مرد حضرات کی صبح کا آغاز نماز کے بعد غنی پارک میں ورزش سے ہوتا ہے جہاں صبح سویرے ہی لوگ بہت بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں۔
غنی پارک لڑکوں کے کھیل کے لیے ایک بہترین گراؤنڈ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے. سردیوں میں بوڑھے بزرگ دھوپ کھاتے, چھوٹے بچے آپس میں کھیلتے اور نوجوان موبائل پر لگے نظر آتے ہیں جبکہ گرمیوں میں نوجوانوں اور بزرگوں کا رش تروتازہ ہوا کے لیے نظر آتا ہے۔رات کے ٹائم غنی پارک کو ڈیٹ پوائنٹ بھی کہا جاتا ہے۔غنی پارک جس جگہ ہے وہاں کچھ عرصہ پہلے دلدل ہوا کرتی تھی جسے اب بنا کر ایک خوبصورت پارک کا نام دے دیا گیا ہے۔
شروع میں یہاں بچوں کے لیے جھولے لگائے گئے تھے۔ جس سے یہ خاص بچوں کی توجہ کا مرکز بنا لیکن آہستہ آہستہ بچوں کی یہ خوشی دور ہوگئی اور جھولے خراب ہونے کی وجہ سے انھیں ہٹا دیا گیا. اس کے علاوہ بھی بہت سی تقریبات ہوتی ہیں جن میں ہر طرح کی پولٹیکل پارٹیز کے جلسے،جلوس،شادی کی تقریبات, مینا بازار, رنگ برنگے فیسٹیول, فٹ بال, ٹینس, اور ہر طرح کے گیمز کھیلے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ مختلف پروگرامز بڑی تعداد میں منعقد ہوتے ہیں۔ ریلی میں جانے کے لیے لوگوں کو ایک مخصوص ٹائم دیا جاتا ہے اور پھر اسی ٹائم پر ریلی غنی پارک سے ہی نکالی جاتی ہے اور وہیں اختتام پزیر بھی ہوتی ہے۔
بچوں کا کہنا ہے کہ وہاں با قاعدہ کرکٹ کے لیے پچز ہیں جس کی وجہ سے کھیل کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے اس لیے ہم کھیل کے لیے غنی پارک کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں تازہ ہوا سے کھیل میں ہار اور جیت کا مقابلہ بہت زبردست ہوتا ہے اور ہم سب دوست یہاں کھیل سے زیادہ .غنی پارک کا مزہ لینے آتے ہیں۔
کبھی ”جیتے گا بھئی جیتے گا“ تو کبھی ”راجہ کی آئے گی بارات “ جیسی مختلف قسم کی آوازوں سے گونجتا ہے۔اس تفریح کے مقام کے آ س پاس جو لوگ اس رہتے ہیں ان کے لیے پریشانی کی بھی وجہ ہے. ان سب کے لیے روز روز کا شورو غل ان کے لئے بہت سی پریشانیوں کا سبب بنتا ہے۔ لیکن زیادہ تر لوگوں کا دھیان اب اس آواز کی طرف نہیں جاتا کیونکہ انھیں اب ان آوازوں کی عادت سی ہوگئی ہے،
.غنی پارک کو سرکاری باغ کہنا درست نہ ہوگا کیونکہ یہ ڈاکٹر راحیلہ گل مگسی کی بدولت دلدل سے .غنی پارک کی شکل میں تبدیل ہوا۔
کوئی بھی ریلی ہو, ۴۱ اگست کا جشن ہو یا نئے سال کی آتش بازیاں سب سے پہلے غنی پارک ہی میں رونق کا سماں ہوتا ہے۔
.غنی پارک میں ٹورنامنٹ بھی ہوتے ہیں جس میں بہت سی ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔ ٹنڈوالہیار میں ۳ سال پہلے مختلف اسکولوں نے مل کر ٹورنامینٹ رکھا جس میں تمام اسکولوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔پہلے اسکولوں نے اپنی ٹیمیں تیار کرنے کے لیے پورے اسکول سے بچوں کو چن چن کر نکالا اور ایک مضبوط ٹیم تیار کی۔ پھر ان کا آپس میں میچ رکھا نویں کلاس کا دسویں کلاس سے اور گیارہویں کلاس کا بارہویں کلاس سے ۔ ان چارو ں ٹیموں میں سے جن دو ٹیموں نے فتح حاصل کی، ان کا ایک دوسرے سے فائنل کروایا گیا اور فائنل جس ٹیم کا مقدر بنا اس کو اسکول کی طرف سے ددسرے اسکولوں کی فائنل ٹیم سے مقابلے کے لیے بھیجا گیا اور آ خر میں ایگل ہاؤس ہائیر سکینڈری اسکول نے پورے ٹنڈوالہیار سے کامیابی حاصل کی۔ اور دوسرے نمبر پر فاؤنڈیشن پبلک اسکول نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔
اس میچ کے دوران اسکولوں کی لڑکیاں کالے برقعوں میں میچ دیکھنے آتیں تھیں جس سے ٹنڈوالہیار کے لوگوں نے ایک نیا ہی نام نکال دیا تھا ’غنی پارک میں کالے کوے ‘۔
رمضانوں میں بھی ٹورنامینٹ ہوتے ہیں اور ٹیمیں دوسرے شہروں یا گاؤں سے آکر حصہ لیتی ہیں اور ساتھ ہی ڈھول بجا کر ماحول کو تازگی بغشتے ہیں اور اپنی اپنی ٹیموں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں.
غنی پارک لوگوں کے لیے ایک مکمل گزرگاہ ہے. غنی پارک کے سامنے رہنے والے ایک لڑکے کا کہنا ہے کہ اچھی ہوا کی وجہ سے میرے والد صاحب ایک دفعہ گرمی کے باعث اور لائٹ نا آنے کی وجہ سے تختہ لگا کر غنی پارک میں سو رہے تھے کہ اچانک ایک کتا بھونکا ان کی آنکھ کھلی تو انھوں نے کتے کو اپنی طرف آتا دیکھا وہ ایک دم چونک اٹھے اور سامان کی پرواہ کئے بغیر گھر کی طرف دوڑ لگائی۔
غنی پارک لوگوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ غنی پارک کبڈی اور مرغے کی لڑائیوں کا اہم مرکز ہے. ویسے تو غنی پارک ایک عام سا میدان ہے لیکن لوگ کسی طور بھی اسے عام نہیں سمجھتے۔