Tuesday 26 January 2016

Profile of Raziqdino Sonaro رزاق ڈنو سونارو

      
رزاق ڈنو سونارو 
مصباح 
ضلع ٹنڈوالہیار کے انفارمیشن سیکریٹری رزاق ڈنو سونارو ۲۵ فروری ۱۹۵۶ میں پیدا ہوئے شہباز کالونی ٹنڈواالہیار میں
 رہتے ہیں ا بتدائی تعلیم اپنے ضلع سے حاصل کرنے کے بعد میٹرک اور انٹر ایس ۔ ایم کا لج سے کیا پوسٹ گریجویٹ پولٹیکل سائنس میں کیا اور ایم ۔اے ۱۹۷۷ میں یونیورسٹی اف سندھ سے کیا آپ ۱۹۷۰ سے پی۔پی ۔پی کے میمبر ہیں آپ کا خاندانی کاروبار سونار کا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ حکیم بھی ہیں ہیپٹائٹس ۔بی اور ہیپٹائٹس ۔سی کا علاج بھی کرتے ہیں کسی عطا کئے ہوئے نسخے کے زریعے خاندانی زبان سرائیکی ہے لیکن آپ کو انگلش ٬اردو٬سندھی٬ہندکو ٬مارواڑی غرض مقامی تمام زبانوں پر عبور حاصل ہے ۲۶جون ۱۹۸۹ میں شادی ہوئی آپ کی ۳ بیٹیاں اور ۵ بیٹے ہیں ٬ آپ کی زوجہ بھی پی۔پی۔پی کی جرنل سیکریٹری ہیں ضلع ٹنڈوالہیار میں مختیار بانو نام سے جانی جاتی ہیں ۲ بےٹے پی۔پی۔پی میں عملہ طور تنظیم میں شامل ہیں آپ کا ایک بیٹا نوکری جبکہ ایک سب سے بڑا بیٹا حادثے میں شہید ہوگیا اور ۱ بےٹی اور ۲ بیٹے پڑھ رہے ہیں آپ کے کوئی بھائی نہیں ہیں جبکہ ۲ بہنیں ہیں رازق ڈنو سونارو ایس۔ایم کالج کے پریزیڈینٹ بھی رہے ہیں اور ۱۷۷۷ میں ڈگری کالج میں رہے سیاسی مسئلے پر دو کتابیں لکھیں سندھی زبان میں جس میں اس وقت کے حالات و صورتحال کے مطابق مطالبے کئے ۱۹۸۱ کے بعد پی۔پی۔پی کے ہر کام میں آگے
 بڑھ کر حصہ لیتے ہیں
رازق ڈنو سونارو لوگوں کی خدمت میں ہر وقت حاضر رہے ہیں آپ ٹنڈواالہیار کی ایک بہت مشہور اور باوقار شخصیت ہیں لوگ دور دور سے آپ کے پاس علاج کے لئے آتے ہیں آپ کا علاج بہت فائدہ مند ہے بچپن سے پی۔پی۔پی مےں دلچسپی ہونے کی وجہ سے پی۔پی۔پی میں شمولیت اختیار کی آپ ایک سیاسی کارکن بھی ہیں قوم کی خدمت انجام دینے کے لئے اور اپنی پارٹی سے متعلق کام کے لئے اسلام آباد٬ لاہور ہر بڑے شہر میں جاتے رہتے ہیں بے نظیر بھٹو صاحبہ کو اپنا لیڈر سمجھتے ہیں آپ سے پہلی ملاقات ۱۹۷۸ میں کی ہر کارکن اپنے لیڈر کے نقشے قدم پر چلنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ ہر لیڈر کارکنان کے لئے مشعل راہ ہوتا ہے جن کے مطابق وہ اپنی زندگی کے فیصلے کرتے ہیں پیپلز پارٹی میں ۴۰ سال سے پہلے سے موجود ہیں اس وقت پیپلز پارٹی کے چئیرمین زوالفقار علی بھٹو سے فروری ۱۹۷۰ میں حیدرآباد میں ملاقات کی ٹنڈواالہیار شہر کے پہلے پی۔پی۔پی صدر محمد رمضان سونارو جو رازق ڈنو سونارو کے ماموں تھے ان ہی کے ساتھ چھوٹے کارکن کی طرح کام کرنا شروع کیا ۱۹۷۷ میں جب مارشل لا ختم ہوئی تو لاڑکانہ سے روہڑی اور روہڑی سے کراچی پھر حیدرآباد تک سفر کیا اور بہت لمبی ملاقات کی اسی ملاقات میں غلام مصطفی ٬ جتوئی ممتاز اور میر مرتضی بھٹو بھی موجود تھے آپ کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے تمام بڑے بڑے عہدیداروں سے پی۔پی۔پی کے جلسے ٬ جلوس اور اکثر وزیراعظم ہاﺅس سمیت المرتضی ہاﺅس میں بھی ملاقات ہوئی ان کے دوستانہ مزاج کو رازق ڈنو سونارو کہتے ہیں
 میں کبھی نہیں بھول سکتا آپ نے سید قائم علی شاہ ٬ بلاول بھٹو ٬ آصف علی زرداری صاحب سب سے ملاقات کی ہوئی ہے اور سب کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں رازق ڈنو سونارو پارٹی قیادت کے بہت قریب رہے ہیں
رازق ڈنو سونارو کو ان کی اعلی کارکردگی پر مختلف قسم کے اعزازات بھی ملے ہیں آپ کو حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی آپ کے کہنے کے مطابق خانہ کعبہ میں آپ کے چھوٹے بیٹے کی پیشانی پر اللہ نام ظاہر ہوا اور بڑے بیٹے کو پہلے ہی پتہ چل جاتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے آپ ایک محنت کش انسان ہیں جو لوگوں کے کام آنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوششوں میں مصروف رہتے ہیں لوگ آپ میں موجود صلاحیتوں سے واقف ہیں اور آپ پر پورا یقین بھی کرتے
 ہیں آپ کے پاس مسائل لے کر آتے ہیں تا کہ آپ ان کا کوئی حل نکال سکیں آپ ٹنڈوالہیار کے علاوہ بھی دوسرے شہروں میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں اور اس سے قبل بھی بہت بار دے چکے ہیں آپ نے اپنی پوری زندگی فلاح وبہبود کے کاموں کے لیے وقف کر رکھی ہے اپنی زندگی کا ایک واقعہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میرے دل کے بائے پاس کے لیے محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے سرکاری طور پر پانچ لاکھ روپے دیے لیکن اللہ کی مہربانی سے اینجوگرافی کے زریعے دل کا وال کھل گیا اور آپریشن کی ضرورت نہ پڑی تو میں نے چار لاکھ اسی ہزار ایک لیٹر(لفافے) کے ساتھ وآپس کردئیے جس پر محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے مجھے بلاول ہاﺅس میں بلا کر شاباشی دی یہ بات مجھے ہمیشہ یاد رہے گی اس کے علاوہ بھی میری بہت سی یادیں پی۔پی۔پی سے آراستہ ہیں جو کسی تعریف کی محتاج نہیں ہیں 
رازق ڈنو سونارو میں بہت سی خداداد صلاحیتیں موجود ہیں آپ دائرے میں رہ کر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے مالامال ہیں آپ کو ایک سلجھا ہوا شخص یا کارکن کہنا غلط نہ ہوگا


By MISBAH-UR-RUDA  ROLL NO: 2K14/MC/52                    
PROFILE- RAZIQ DINO SONARO 

1 comment: