Monday 26 October 2015

Interview with Imtiaz Ursani by Anum Shaikh

UN-Edited
Is this topic approved?  It should carry ur name, roll number,  class, semester and date in urdu. Photo of personality. 
will give feedback after going thru it

The man from whom u got interview is basically  educator and running a private school.
Ur question should ave been abt education and private schools, etc
He is not literary person himself, though his family has literary background
U did not comprehend the thought of interview, rather fulfilled just formality, that show irresponsible attitude
Anam Shaikh ROll 7 امتیاز احمد عرسانی
انعم
جنرل سیکرٹری 'اوسر' فاؤنڈیشن۔
سوال: لفظ "اوسر" کا کیا مطلب ہے؟ اور یی لفظ آیا کہاں سے؟
جواب: اوسر سندھی کا ایک لفظ ہے، جس کا معنی ہیں 'ترقی'۔

سوال: اوسر فاؤنڈیشن کا اصل مقصد کیا ہے؟
جواب: اوسر فاؤنڈیشن میں تعلیم، سندھی زبان،اور سندھی ثقافت کے لیے کام کیا جاتا ہے۔ ہمارے دس ادارے ہیں،جن میں آٹھ (8)اسکول ہیں ایک ٹریننگ سینٹر ہے اور ایک گرلز کالج ہے۔جوکہ سندھ کے مختلف دیہاتوں میں ہے۔ہمارے سب ادارے سندھی میڈیم میں ہیں۔ اور ہمارا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ شاگرد سندھی زبان میں تعلیم حاصل کریں اور آگے بڑھیں۔

سوال: اس ادارے سے کس طرح منسلک ہوۓ؟
جواب: اوسر فاؤنڈیشن2002 میں  رجسٹر کروائ تھی۔ ہمارے چئیرمین شمس الدین عرسانی ہیں،اور میرے والد صاحب بھی ہیں آپ۔ اس دور میں انھوں نے مجھے ٹرسٹی بنایا تھا۔ اس وقت ہمارے جنرل سیکریٹری حیدر علی خان لغاری صاحب تھے ان کی وفات کے بعد مجھے جنرل سیکریٹری کی ذمیداری دے دی گئ۔

سوال: آپ نے کتنی تعلیم حاصل کی ہے؟ اتنا
جواب: میں نے ایم-فل کیا ہے ایجوکیشن میں۔ایم-اے کیا تھا سندھ یونیورسٹی سے اور ایم-فل ہمدرد یونیورسٹی سے۔ اور اب میں ایجوکیشن میں پی-ایچ ڈی کر رہا ہوں۔

سوال:کسی نے انسپائر کیا آپ کو؟
جواب: جی جی،  میں اپنے والد صاحب سے انسپائر ہوں جو بڑے مصنف ہیں سندھی ادب کے۔ انھوں نے 25کتابیں لکھیں ہیں جن میں سے ایک اردو زبان میں ہے ،اور وہ  اب بھی لکھتے ہیں پر ان کی بہت ساری کتابیں شائع نہيں ہوئیں۔ وہ مختلف شخصیات پر لکھتے ہیں۔ انھوں نے ایک لغت بھی لکھی ہے۔ جنگ نیوزپیپر میں بہت آرٹیکلز بھی لکھے۔ اور انھیں تالیف کیا ہے۔ انھوں نے مختلف مضامیں پر لکھا ہے۔ تنقید پر عبور حاصل ہے۔ میں بھی اپنے والد صاحب کی طرح مصنف بننا چاہتا ہوں۔ ان ہی کی طرح کتابیں لکھنا چاہتا ہوں۔ میرے نانا بھی کتابیں لکھتے تھے انکی وفات کے بعد میرے بابا نے ان کا قلم سنبھالا اور میں بھی چاہتا ہوں کہ اپنے والد صاحب کا قلم سنبھالوں اور اتنا ہی اچھا لکھ سکوں۔

سوال: لکھنے کا شوق ہے آپ کو؟ کوئ کتاب لکھی آپ نے؟
جواب:جی جی، میں بلکل لکھتا ہوں آرٹیکلز وغیرہ مگر اب تک کوئ کتاب نہیں لکھی۔

سوال: مستقبل میں کوئ کتاب لکھنے کا ارادہ ہے؟
جواب: میں نے جو آرٹیکلز لکھے ہیں ان کو تالیف کر کے ایک کتاب کی شکل دینے کا ارادہ رکھتا ہوں۔

سوال:لکھنے کے ساتھ ساتھ آپ مطالع بھی کرتے ہیں اور کن موضوعات پر مطالع کرنا پسند کرتے ہیں۔
جواب: جی مجھے کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے،میں بچپن ہی سے کتابوں سے جڑا رہا ہوں۔ہمارے گھر میں لائبریری ہے جہاں سے میں کتابیں پڑھتا رہا ہوں۔ شروع میں شورٹ اسٹوریز پڑھتا تھا پھر جیسے جیسے کتابوں سے لگاؤ بڑھتا گیا اور ہمارے گھر کا ماحول ہی ایسا تھا سب پڑھتے تھے اور مجھے تاریخی ،ادبی، جغرافی کی کتابیں پڑھنے کا شوق رہا اور ابھی تک میرا مطالع جاری ہے ابھی جو بھی آرٹیکل اخبار میں آتے ہیں یا جو بھی اچھی کتاب آتی ہے وہ ہم اپنی لائبریری میں رکھتے ہیں۔

سوال: اب تک کا بہترین سوشل ورک جو آپ نے کیا؟
جواب: میرا بہترین سوشل ورک یہی ہے کہ دیہی علاقوں میں ہم نے اسکول کھولے،اس میں خاص بات یہ ہے کہ ہم اپنی مادری زبان کو اہمیت دیتے ہیں ہمارے سارے ادارے سندھی میڈیم ہیں مگر ہمارا خیال یہ ہے کہ شاگردوں کو ان کی اپنی زبان میں پڑھنا چاہیے تو اس سے زیادہ اچھی  طرح سمجھ میں آئیگا اور انھیں ترقی ملےگی۔

سوال: اسکولز اور کالجز وہ پرائیویٹ ہیں یا فنڈبیسڈ ہیں؟
جواب: ہمارے ادارے کو چلانے  اور بنانے کے تین اسٹیپ ہولڈر ہوتے ہیں ۔پہلی کمیونیٹی ہوتی ہے ، کمیونیٹی ہمیں پلاٹ  دیتی ہے اسکولز وغیرہ کے لیے،دوسرا پھر ڈونر  ہوتے ہیں جو ہمیں اسکول بنانے کے لیے فنڈ دیتے ہیں ۔ تیسرا اوسر فاؤنڈیشن جو کہ اس جگہ پر اسکولز بناتے ہیں اور اس کو چلاتے ہیں ۔ سارا نصاب ہمارا اپنا ہوتا ہے اور اسکول چلانے کے ذمیدار ہم ہوتے ہیں اور اسے ترقی دلانے کا بھی ذمیدار اوسرا فاؤنڈیشن ہوتا ہے۔

سوال: اوسر فاؤنڈیشن کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں آپ؟
جواب:  ہمارا مستقبل کا ارادہ  یہ ہے کہ سندھ کی تعلیم جو کہ پیچھے رہ گئ ہے اسے آگے لے کر چلے ۔ سندھ کی تعلیم کا نظام سارا درہم برہم ہو چکا ہے۔ہم چاہتے ہیں کہ اسے ہم سنبھالیں اور ہمارا ادارہ حکومت کے ساتھ کام کرے اور حکومت کو ہم کر کے دکھائیں کہ تعلیمی ادارے کس طرح چلاۓ جاتے ہیں اور ہماری تعلیم کو کس طرح ترقی دی جاسکتی ہے۔ ہم چاہیں گے کہ اس نظام کے تحت ہم تمام دیہی علاقوں میں سندھی میڈیم اسکول  قائم کریں اور سندھی سائنس کالج اور سندھی یونیورسٹی کا قیام عمل میں آۓ جن میں تمام علوم میڈیکل ہو یا انجینئرنگ سب سندھی میں پڑھایا جاۓ۔

سوال:آپ کچھ کہنا چاہیں گے ہماری نوجوان نسل سے؟
جواب: میں میرا میسج دینا چاہوں گا کہ تعلیم اپنی مادری زبان میں حاصل کرنی چاہیے۔ہمارے ملک میں جو چند اسکولز ہیں اور ہمارے جو حکمران ہیں ان کو ميں بتانا چاہتا ہوں کہ جو قوم اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتی ہے وہ زیادہ فائدے میں ہوتی ہے۔ لوگوں میں تخلیقی کام کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہےاور اسی طرح ہم اچھے سائنسدان اچھے ڈاکٹر اور اچھے انجینئر دنیا کو دے سکیں گے اور ہماری قوم کی ترقی اسی میں ہی چھپی ہوئ ۔اگر ہم اپنی مادری زبان کو چھوڑ کر دوسری زبانوں میں تعلیم حاصل کریں گے تو ہم میں وہ صلاحیت پیدا نہیں ہوگی اور ہماری تعلیم پیچھے رہ گئ ہے اور اسکی وجہ بھی یہی ہے۔

1 comment: