Sunday 25 October 2015

Interview of Anwar Figar by Sidra Khalid

شاعر بغیر عشق کے شاعری نہیں کرتا۔ ڈاکٹر انور فگار ھکڑو
سدرہ خالد
BS-II

ڈاکٹر انور فگار ھکڑو کا تعلق شکارپور سے ہے۔ اپریل 1961 آپ کی تاریخ پیدائش ہے۔ سندھ یونیورسٹی سے ایم-اے سندھی اور سندھی لٹریچر میں پی-ایچ-ڈی کی۔ آپ ایک نامور مصنف ہیں ۔ آپ کا قلمی نام 'انور فگار' ہے۔ آپ نے17کتابیں اور100 مقالات لکھے ہیں۔ آپ کی کتاب 'شیخ ایاز فن اور شخصیت' پاکستان اکیڈمی لیٹرز سے شائع ہوئ۔ آپ گولڈ میڈلسٹ ہیں ۔ سندھی ڈپارٹمنٹ، یونیورسٹی آف سندھ کے چئیرپرسن ہیں۔ 

سوال:آپ کو لکھنے پڑھنے کا شوق کس عمر سے ہوا؟
جواب:میں ایک ادبی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے دادا عبدالرحمّن صاحب بھی استاد رہ چکے ہیں اور آپ انگریزی میں ایک میگزین میں لکھا کرتے۔ ہمارے خاندان کے ادیب نگاروں سے تعلقات تھے۔ میرے والد محمد صدیق بھی سندھی میں لکھتے تھے۔ ہمارے گھر میں ایک لائبریری تھی جہاں سندھ کے ادیبوں کی کتابیں موجود رہیں اب تو وہ خستہ حالت میں ہے کہ دکھا بھی نہیں سکتا۔ بہرحال میں جب چھوٹا تھا اکثرو بیشتر فارغ اوقات  میں اس لائبریری کا رخ کرتا وہاں جاکر مجھے ذہنی سکون ملتا۔اسی لائبریری نے میرے ذوق کو ابھارا اور مجھے انہی کتابوں نے اپنی طرف راغب کیا۔ کم عمری سے ہی کتابیں میری دوست بن گئیں ۔ اسی وجہ سے مجھے لکھنے کا اور کتابیں پڑھنے کا شوق ہوا۔

س: پہلی کتاب کب لکھی؟
ج :ء1978 میں نے لکھنا شروع کیا۔ 

س : تعلیمی سفر میں کہیں مشکلات سے ہمکنار ہوۓ؟
ج: بی بی؛زندگی کا سفر آسان نہیں۔ میرے والد صاحب 1969میں انتقال کر گۓ۔اس کے بعد میں نے مزدوری کی اور پڑھائ بھی جاری رکھی۔انٹر کرنے کے بعد حالات بہت تنگ ہوگۓ۔ کچھ عرصے کے لیے پڑھائ کا ساتھ چھوڑ دیا ، مگر اللہ کا بڑا کرم ہوا ،میں نے ٹیچنگ شروع کردی۔ اور سندھ یونیورسٹی  سے ایم-اے سندھی کیا، اور سندھی لٹریچر میں پی-ایچ ڈی کی، اور ساڑھے تین سال میں اپنا تھیسس مکمل کیا اور آج بھی میرا تھیسس ''شکارپور شہر کا سندھی ادب میں حصہ'' سندھیولوجی میں موجود  ہے۔  بات  میرے لیے باعث فخر ہے۔انسان تین چیزوں کی  وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکتا : مصیبت میں، مشکلات میں اور عشق
میں۔  بس ان تین چیزوں کو خود پہ حاوی مت ہونے دینا۔

س : آپ کی کتابوں کا موضوع کیا رہا؟ اور کونسا دل کے قریب رہا کچھ وضاحت کریں گے؟
ج : میرے موضوعات شکارپور، صحافت ، تنقید وجائزہ  اور شیخ ایاز رہے۔ اور انھی سے مجھے زیادہ لگاؤ رہا۔ 
شکارپور میرا آبائ شہر ہے،اس سے میری دلی اور ذہنی وابستگیاں ہے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں ایک سے بڑھ کر ایک ادیب ہے۔ شکارپور سے مجھے بےحد انسیت ہے۔ وہاں کے لوگوں کے پاس بہت علم ہے۔اس پر لکھنا ،ریسرچ کرنا مجھے اچھا لگتا ہے۔
شیخ ایاز صاحب نامور شخصیات میں سے ہیں۔ اور شاھ عبدللطیف کے بعد آپ سندھ کے دوسرے بڑے شاعر رہے۔   ان کے ساتھ زندگی کا قیمتی وقت گزارا ہے۔ بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ اس زمانے میں وہ سکھر میں رہتے تھے تو ان سے مجھے بار بار ملاقات کا شرف حاصل رہا۔ مجھے بہت شعور رہا لکھنے پڑھنے کا اور کافی معلوماتی تبادلہ ہوتا تھا میرے اور شیخ صاحب کے درمیان ۔ جہاں میں ان سے متاثر تھا کہیں نہ کہیں وہ بھی مجھ سے متاثر رہے۔ اور شیخ صاحب  کی شخصیت ہی اتنی متاثرکن ہے کے ان پر لکھنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ان پر میں نے  تین کتابیں لکھیں، ایک کتاب میری اردو سندھی میں ہے ''شیخ ایاز: فن اور شخصیت"   اور ایک سندھی میں:" شیخ ایازایک منفرد قلمکار"ہے۔
'صحافت' چونکہ میں نے اس لیے چنا کیونکہ میں خود اس پیشے ميں رہا ہوں اور اس موضوع سے کافی روشناس ہوں ۔ میں جرنلسٹ رہ چکا ہوں مگر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ والوں نے یہ کہہ کر نکال دیا کہ سرکاری ملازم جرنلسٹ نہیں بن سکتا ۔ مجبوری کے تحت صحافت چھوڑدی۔ اور" شکارپور جي صحافتي تاریخ " میرا ریسرچ ورک ہے۔ جو میں نے اس پیشے سے سیکھ کے لکھا ہے۔

س : ایسی کوئ کتاب جو ادھوری رہ گئ ہو؟
ج :ہاں بلکل ۔ایسی کیفیت ہوتی ہے کبھی کبھی دل ہوتا ہے کہ اب نہیں لکھا جارہا مگر اس اثر سے بھی نکلنے کا ایک طریقہ ہے میں جب امید چھوڑتا ہوں تو  شیخ ایاز اور دیگر معلوماتی  کتابیں پڑھنے لگتا ہوں۔ لیکن شیخ صاحب کی کتابیں مجھے موٹیویٹ  کرتی ہیں۔ اور یہی وجہ ہے میں اپنی کتاب کبھی ادھوری نہیں چھوڑتا۔ ہاں بس ایک کتاب ادھوری چھوڑی جو میری بائیو گرافی تھی جسکا عنوان تھا :''یہ کتاب کوئ نہ پڑھے''۔ اور وہ نجانے کہاں گم ہوگئ پھر میرا دل نہیں کیا خود پہ کچھ لکھنے کو۔

س : شروع سے ہی مصنف بننا چاہتے تھے؟ کبھی ڈاکٹر یا انجینئر بننے کا نہیں سوچا؟
ج : ڈاکٹر بننا چاہتا تھا مگر حالات کے آگے بےبس تھا۔ والد کے گزر جانے پر مجھے لگتا تھا کہ میں کسان یا مزدور بن جاؤںگا، اللہ میری والدہ کو جنت نصیب کرے انھیں اتنا شعور تھا کہ جب میں انکی گود میں اپنا سر رکھتا تو اپنا سارا علم بھول جاتا بس ان کو سنتا ان کے علم سے استفادہ اٹھاتا۔ ان کے ایک استاد تھے اور بڑے بڑے عالموں کی صحبت کی بدولت وہ اتنا کچھ جانتی تھی۔ اور میں نے پی-ایچ-ڈی کی ہے ڈاکٹر تو میں بن گیا۔

س :سندھ میں سندھی صحافت کا کیا رجحان تھا آزادی سے پہلے؟ اور اس کا اتنا تذکرہ کیں نہیں جتنا اردو اور ہندی صحافت
 کا ہے؟
ج :سندھی صحافت سندھ کا بہت اہم حصہ رہا ہے آزادی سے پہلے۔ اردو صحافت بھی پری پارٹیشن سے پہلے کافی اہم رہی اور ہندی صحافت بھی۔ شکارپور میں اسکولوں میں  صحافت کا تذکرہ کیا جاتا تھا ۔شیخ صاحب اور میرے والد صاحب دونوں ہی اس موضوع کا حصہ رہے ہیں اور لکھا بھی کرتے تھے۔افسوس کی بات ہے سندھی صحافت کو کسی نے وہ مقام نہیں دیا جو دینا چاہۓ تھا۔ پارٹیشن کے بعد بہت نقصان ہوا۔ 

 س :شاعری سے لگاؤ ہے، کس مزاج کی شاعری کرتے ہیں؟
ج : شاعری سے مجھے بہت لگاؤ رہا ہے۔ ایسی کیفیت کا طاری ہونا جس میں انسان ڈوب جاۓ  مجھے اس کیفیت میں رہنا پسند ہے۔ کراچی میں مشاعروں کی محفلوں میں اکثر جانا  ہوتا تھا۔ پروین شاکر اور فیض احمد فیض سے بھی سامنا ہوا کرتا تھا۔ میں عشق و عاشقی اور تصوف جیسے موضوعات پر لکھتا ہوں۔ ایک شعر میں نے شیخ صاحب کی بھی خدمت میں کچھ یوں پیش کیا: 
تو اللہ اکبر،میں انور فگار           پجاریون غزل مھنجو، تھنجو کتاب
اس پر آپ نے کہا کہ ایسی شاعری مت کیا کرو۔ مگر مجھے اسی طرح کی شاعری کا شوق ہے۔ 

س : عاشقانہ مزاج رہا شاعری کا انداز، کبھی کسی سے عشق ہوا؟
جواب:شاعر بغیر عشق کے شاعری نہیں کرتا۔ ہاں عشق ہوا تھا،اسی عشق کے لیے شاعری بھی کی۔ شاعر کی فطرت میں ہے عشق کرنا، کبھی اسے پالینا یا کبھی وہ تڑپ بس دل میں ہی دبا لینا اور اشعار کی صورت میں پیش کرنا ایک شاعر کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ یہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا۔ 

سوال: موسیقی سے لگاؤ، کس قسم کا ذوق ہے؟ 
ج : بلکل لگاؤ ہے۔ ذہنی تھکاوٹ دور کرتا ہے۔ مجھے کلاسیکل موسیقی زیادہ پسند ہے۔ 

س :کبھی اپنی آواز کو آزمایا؟ کوئ ساز بجانا آتا ہے؟
ج :جی بلکل گانے کا شوق رہا، اسکول کالج میں اپنی آواز آزمائ، ہارمونیم بھی بجایا مگر جب پی-ایچ-ڈی کرنے لگا تو ان سب سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔

س :ایک لکھاری سارا دن لکھنے میں مصروف ہوتا  ہے کبھی گھروالوں نے کوئ شکوہ کیا؟
ج :یہ میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں کام کے دوران میں انھیں وہ وقت نہیں دے پاتا جو اس وقت دینا چاہيے ہوتا ہے۔شکوہ انھوں نے نہیں کیا  کیونکہ وہ میرے شوق سے بخوبی واقف ہیں۔ میرے شوق کی حد بھی ایسی ہے کہ میں ان کے ساتھ ہوکر بھی وہاں موجود نہیں ہوتا، میرا سارا دماغ کسی نہ کسی سوچ میں مشغول رہتا ہے۔ اس معاملے میں مجبور ہوں میں۔

سوال: آپ کی کسی اولاد میں لکھنے کا شوق آیا؟
جواب: نہیں میری کسی اولاد میں یہ شوق نہیں آیا۔اور نہ میں نے ان میں زبردستی یہ شوق ڈالا۔ بلکہ میں سپورٹ کرتا ہوں انکو ان ہی کے شوق میں۔

س: لکھنے کے علاوہ کیا معمول ہے آپ کا؟
ج : فی لحال لکھنا ہی میرا معمول ہے۔ مگر کبھی کبھی دل کرتا ہے مناسب تو نہیں کہنا پر۔۔۔ آوارہ گردی کرنے کو، یوں ہی باہر ٹہلنے کو، مشاہدہ کرنے کو، خود سے باتیں کرنے کو۔ ان سب کو بھی اپنا معمول بنانا چاہتا ہوں۔


س : سندھی ڈپارٹمنٹ کا چئیرپرسن بناگیا آپ کو؟ کیسا محسوس کرتے ہیں؟
ج : یہ بہت بڑی ذمیداری ہے ۔ میری بس خود کے لیے دعا ہے خداوند کریم مجھے ثابت قدم رکھے۔ کیونکہ میں اپنے ضمیر کے آگے بھی جوابدہ ہوں اور خدا کے آگے بھی۔ بس مجھے جو ذمیداری دی ہے میں اس میں ایماندار رہوں۔ ميں بہت خوشی محسوس کرتا ہوں خدا نے مجھ پہ اتنی رحمت کی ہے۔

س :کوئ ایسی چیز جسے پانے کی چاہ ہو؟
ج : پایا میں نے سب کچھ ہے جو بھی میں نے چاہا ہے۔ اب بس خود کو پانے کی چاہ ہے،خود کو تلاش کرنا چاہتا ہوں، دیکھنا چاہتا ہوں کہ میں کیا تھا اور کیا ہوں اب تک۔ میرے نزدیک ایسا ہے جس نے خود کو ڈھونڈ لیا، تو سمجھو اس نے خدا ڈھونڈ لیا۔

س :معاشرے میں آپ کو کیا مقام حاصل ہے؟
ج: اپنا مقام میں خود نہیں بتاسکتا،البتہ سماج بہت عزت دیتا ہے۔ اور اس میں اللہ کا شکرگزار ہوں میں۔

س : ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کا کیا ارادہ ہے؟
ج : اگر میں زندہ رہتا ہوں تو یہی کام کرونگا جو اب تک کرتا آرہا ہوں۔میری نظر میں ریٹائرمنٹ کے بعد والی کؤی زندگی نہیں۔ اور پروفیسر کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔

س : آپ ہم اسٹوڈنٹز کے لیے کچھ نصیحت کریںگے؟
ج : میں یہ کہوں گا کہ استاد ایک چراغ کی مانند ہے،وہ آپ کو علم کی ایک کرن دکھاتا ہے،منزل سے آگاہ کرتا ہے، اس منزل کا راستہ آپ کو تلاش کرنا ہے اپنی محنت اور لگن سے۔استاد کو کسی معاملے میں یہ نہ کہنا کہ آپ نے بتایا نہیں،ہم نے کیا نہیں۔ علم کا سمندر بہت گہرا ہے۔ اس سمندر میں خود اترو اور اسکی گہرائ کا اندازہ لگاؤ۔
This practical work was done under the guidance of Sir Sohail Sangi, at Department of Media and Communication Studies, University of Sindh.

8 comments:

  1. I guess this first interview of Dr Figar in Urdu. Over all its good. Keep it up

    ReplyDelete
  2. waaaah Kamaaal ka interview hai keep it up

    ReplyDelete
  3. معاشرے میں آپکا کیا مقام ہے؟ واہ، سلام ہے ایسا سوال پوچھنے والے کو...

    ReplyDelete