Friday 2 October 2015

Naseem Tariq profile by Sidra Khalid


پروفائیل پرو فیسر نسیم طارق 
 تحریر : سدرہ خالد                   

علم ایک ایسی طاقت ہے جو گرے ہوئے کو بھی کھڑا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جس کے پاس علم نہیں اس کی زندگی میں ترقی کے اتنے مواقع نہیں۔زندگی کے ہر موڑ پر تعلیم ڈھال کی طرح ہے۔جس نے اس سے استفادہ اکرناا اسی نے اپنا مقصد پا لیا۔ ایسے ہی تعلیم اور محنت سے آگے بڑھنے اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والی ریٹائررڈ اسسٹنٹ پرو فیسر نسیم طارق ہیں ۔ وہ 1955ءسکھر میں پیدا ہوئیں۔ان کے خاندان میں عورتوں کو اعلی تعلیم دلانے کا رواج نہ تھا۔

 میٹرک کے بعد نسیم کو والدین نے گھر بٹھا دیا مگر پڑھنا اور آگے بڑھنے کے جنون کی وجہ سے انہوں نے کسی کی نہ سنی ۔ والد صاحب سے ضد کر کے کالج میں داخلہ لیا۔ والد صاحب آپ کے معمولی پیشہ ور آدمی تھے آمدنی اتنی نہ تھی کہ دس افراد کا تعلیمی خرچہ اٹھا سکتے۔دو وقت کی روٹی میسر ہوجاتی کافی تھا۔ چونکہ آپ سب میں بڑی تھیں اور گھریلو حالات سے واقف تھیں تو آپ نے والد کے ساتھ مل کر کم عمری میں گھر کی ذمہ داری اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ 

میٹرک کے بعد پڑوس کے بچوں کو ٹیوشنز دیتی اور ملنے والی رقم آدھی گھر میں دیتی بقایا پیسوں سے اپنی کتابیں اور فیسیں ادا کرتیں۔طرح طرح کی نوکریاں کیں۔ وہ غربت بھری زندگی سے نکلنا چاہتیں تھیں۔ وہ معاشرے میں عزت والا مقام چاہتی تھیں۔ اپنا حال بدل کر مستقبل بہتر بنانا چاہتی تھیں۔ اور اس کے لیے آپ ںے دن رات ایک کر دیے۔  

 کالج آپ نے اعلی نمبروں سے پاس کیا تو بی-ایڈ کرنے کے لیے اپلائی کردیا۔ اوریہیں سے ٹیچینگ کے سلسلے کا آغاز ہوا۔

 بہن بھائیوں کی تعلیم کا ذمہ آپ نے اٹھایا۔ آپ کا سوچنے کا انداز اپنے گھر والوں سے منفرد تھا۔نسیم میں احساس ذمیداری تھا، آگے بڑھنے کی لگن تھی۔ آپ ہی کی بدولت گھر کا نظام بدلا۔اتنا کچھ کرنے کہ بعد آپکی امید اور برھتی گئی۔ آپ کو واپڈا اسکول میں بطور ٹیچر منتحب کیا۔ترقی کے سفر کا آغاز ہوا۔ اپنے پیشے کے ساتھ سنسئر رہی خوب محنت سے پڑھاتی اور آپ کے اسٹوڈنٹز کی بہترین کارگردگی کی وجہ سے اسکول انتظامیہ نے پرنسپل بنانے کے لیے منتخب کیا۔ 
 نسیم کے لیے یہ بے انتہا خوشی کی بات تھی۔ اپنی اسپیچ میں آپ نے سب کو یہی کہا " غریب ہونا میری قسمت میں تھا ، پر میرا مقدر نہیں۔ انسان خود زندگی سنوارتا اور بگاڑتا ہے۔ اور مجھے خود کو سنوارنا تھا" علم کے زیور سے۔

 ہسٹری میں ماسٹرس کرنے کے بعد واپڈا کالج ،گڈو میں پروفیسر ہو گئیں۔ اس وقت آپ واحد عورت تھیں جنھیں جونئیر پروفیسر بنا گیا۔ آپ کے لیے یہ اعزاز کی بات تھی۔ وہ بتاتی ہیں کہ اتنی سفارشوں والوں میں میرا نام میرٹ پہ آنامیری محنت کا نتیجہ ہے جو میرے پروردگار نے مجھے نوازا ہے۔ 

 آپ جس گھرانے سے تعلق رکھتی ھیں وہاں عورتوں کا اس طرح مردوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ کام کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا تھا، مگر ایسے لوگ کبھی آگے نہیں بڑھتے جو زمانے کی پرواہ کریں۔ اسی سوچ اور روایت کو آپ نے بدلا ، آپ نے اپنی محنت جاری رکھی۔
آپ ہر ایک کے لیے ہمدرد رہیں چاہے اپنے ہوں یا پرائے۔نسیم اپنے اصل مقصدسے واقف ہیں،اسی محنت کی وجہ سے آسمان کی بلندیاں بھی چھو لی ، اور زمین پر اپنے جیسون کی مدد بھی کرنا جاری رکھا۔ 

اسی اثناء میں انہوں نے ان طالبعلموں کو مفت تعلیم دی اور ان کے دیگر تعلیمی اخراجات بھی خود اٹھائے ۔ آپ کو یہ ہر گز گوارہ نہ تھا کہ غربت جیسی مجبوری کے آگے کسی کے خواب نہ بکھر جائیں۔ ان کے خوابوں کو پورا کرنے کی آپ نے ہر وہ ممکن کوشش کی جو ایک استاد اپنے شاگروں کے لیے کرتا ہے۔

آج آپ ہی کے توسط سے بے شمار ہونہار طالبعلم ترقی کی سیڑھیاں عبور کر رہے ہیں۔ تمام شاگرد آپ کے گرویدہ ہیں آج آپ کی کاوشوں اور محنت کی بدولت وہ اپنا مقصد پانے میں کامیاب ہوئے۔ 

 آپ کو رب تعالی نے دو بیٹوں سے نوازا۔ ایک بیٹا این-ٹی-ڈی-سی واپڈا میں ہے،اور دوسرا میکینیکل انجیئنر ہے۔ 

آپ اب اسسٹنٹ ریٹائرڈ پرفیسر ہیں تربیلا واپڈا کالج سے،ریٹائیرمنٹ کے بعد مستقل آپ لاہور منتقل ہوگئیں ہیں۔ آپ کی محنت اور نیک نیتی کا صلہ اب تک مل رہا ہے۔ آپ کے اسٹوڈنٹس آپ کی عزت اور تعریف کیے بغیر تھکتے نہیں۔ ایک استاد کی  
کامیابی ہی یہی ہے کہ آج وہی شاگرد آپکو اچھے لفظوں میں یاد کرتے ہیں۔

SIDRA KHALID
ROLL#120
 بی ایس پارٹ ٹو سیکنڈ سیمسٹر 2015
Practical work carried under supervision of Sohail Sangi

---------------------------------FIRST VERSION ----------------------
پرو فیسر نسیم طارق
 Sidra Khalid  Profile 
علم ایک ایسی طاقت ہے جو گرے ہوۓ کو بھی کھڑا کرنے میں اہم کردار ادا
  کرتی ہے۔ جس کے پاس علم نہیں اس کی زندگی میں ترقی کے اتنے مواقع نہيں۔زندگی کے ہر موڑ پر تعليم ايک ڈھال کی طرح ہے۔جس نے اس سے استفادہ اٹھاليا اسی نے اپنا مقصد پا لیا۔ ایسے ہی تعلیم اور محنت سے آگے بڑھنے اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والی ریٹاءرڈ اسسٹنٹ  پرو فیسر نسیم طارق۔ 1955ء سکھر میں پیدا ہوی۔ان کے خاندان میں عورتوں کی اعلی تعلیم کو اتنا فروغ  حاصل نہ تھا۔ میٹرک کے بعد آپ کو والدین نے گھر بٹھا دیا مگر پڑھنا اور آگے  بڑھنے کے جنون میں آپ  نے کسی کی نہ سنی اور والد صاحب سے ضد کر کے کالج میں داخلہ لیا۔ والد صاحب آپ کے معمولی پیشہ ورآدمی تھے آمدنی اتنی نہ تھی کہ دس افراد کا تعلیمی خرچہ اٹھا سکتے۔دو وقت کی روٹی میسر ہوجاتی کافی تھا۔ چونکہ آپ سب میں بڑی تھیں اور گھریلو حالات سے واقف تھیں تو آپ نے والد کے ساتھ مل کر کم عمری میں گھر کی ذمیداری اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ میٹرک کے بعد ہی آس پڑوس کے بچوں کو ٹیوشنز دیتی۔  اور ملنے والی رقم آدھی گھر میں دیتی بقایا پیسوں سے اپنی کتابیں اور فیسیں ادا کرتیں۔طرح طرح کی نوکریاں کیں۔ وہ غربت بھری زندگی سے نکلنا چاہتیں تھیں۔ وہ معاشرے میں عزت والا مقام چاہتی تھیں ۔ اپنا حال بدل کر مستقبل بہتر بنانا چاہتی تھیں۔ اور اس کے لیے آپ ںے دن رات ایک کردیے۔                                             ۔                                       کالج آپ نے اعلی نمبروں سے پاس کیا تو بی-ایڈ کرنے کے لیے اپلاۓ کردیا۔ اوریہیں سے ٹیچینگ کے سلسلے کا  آغاز ہوا۔                                                    بہن بھاہیوں کی تعلیم کا ذمہ آپ نے اٹھایا۔  آپ کا سوچنے کا انداز اپنے گھر والوں سے منفرد تھا۔ آپ ميں احساس  ذمیداری تھی، آگے بڑھنے کی لگن تھی۔ آپ ہی کی بدولت گھر کا نظام بدلہ۔اتنا کچھ کرنے کہ بعد آپکی امید اور برھتی گئ۔ آپ کو واپڈا اسکول میں بطور ٹیچر منتحب کیا۔ترقی کے سفر کا آغاز ہوا۔ اپنے پیشے کے ساتھ سنسئر رہی خوب محنت سے پڑھاتی اور آپ کے اسٹوڈنٹز کی بہترین کارگردگی کی وجہ سے اسکول انتظامیہ نے پرنسپل بنانے کے لیے منتخب کیا۔                                                             
آپ کے لیے یہ بے انتہا خوشی کی بات تھی۔ اپنی اسپیچ میں آپ  نے سب کو یہی کہا   " غریب ہونا میری قسمت میں تھا ، پر میرا مقدر نہیں۔ انسان خود زندگی سنوارتا اور بگاڑتا ہے۔ اور مجھے خود کو سنوارنا تھا" علم کے زیور سے۔                                                                                                          ماسٹرز ان ہسٹری کرنے کے بعد واپڈا کالج ،گڈو میں پروفیسر ہو گئیں۔ اس وقت آپ واحد عورت تھیں جنھیں جونئیر پروفیسر بنا گیا۔ آپ کے لیے یہ اعزاز کی بات تھی۔                                                      اپ نے بتایا کہ اتنی سفارشوں والوں میں میرا نام میرٹ پہ آنا۔۔۔۔ یہ سب میری محنت کا نتیجہ ہے جو میرے پروردگار نے مجھے نوازا ہے۔                      آپ جس گھرانے سے تعلق رکھتی ھیں وہاں عورتوں کا اس طرح مردوں کے ساتھ شانہ بہ شانہ کام کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا تھا، مگر ایسے لوگ کبھی آگے نہیں بڑھتے جو زمانے کی پرواہ کریں۔ اسی سوچ اور روایت کو آپ نے بدلا ،
                                         آپ نے اپنی محنت جاری رکھی۔
آپ ہر ایک کے لیے ہمدرد رہیں چاہے اپ کے اپنے ہوں یا پراۓ ۔ آپ اپنے اصل سے  واقف ہیں،اسی محنت کی وجہ سے  آسمان کی بلندیاں بھی چھولی ، اور زمین پر اپنے جیسون کی مدد بھی کرنا  جاری رکھا۔
اسی اثناء میں آپ نے آپ نے ان طالبعلموں کو مفت تعلیم دی اور ان کے دیگر تعلیمی اخراجات بھی خود اٹھاۓ۔ آپ کو یہ ہر گز گوارہ نہ تھا کہ غربت جیسی مجبوری کے آگے کسی کے خواب نہ بکھر  جائیں۔ ان کے خوابوں کو پورا کرنے کی آپ نے  ہر وہ ممکن کوشش کی جو ایک استاد اپنے شاگروں کے لیے کرتا ہے۔
آج آپ ہی کے توسط سے بے شمار ہونہار طالبعلم ترقی کی سیڑھیاں عبور کر رہے ہیں۔ تمام شاگرد آپ کے گرویدہ ہیں آج آپ کی کاوشوں اور محنت کی بدولت وہ اپنا مقصد پانے میں کامیاب ہوۓ۔                                            آپ کو رب تعالی نے دو بیٹوں سے نوازا۔ ایک بیٹا آپ کا این-ٹی-ڈی-سی واپڈا میں ہے،اور دوسرا میکینیکل انجیئنر ہے۔ آپ کے بیٹے بھی اعلئ عہدوں پر فائز ہیں۔
آپ اب اسسٹنٹ ریٹائرڈ پرفیسر ہیں تربیلا واپڈا کالج سے،ریٹائیرمنٹ کے بعد مستقل آپ لاہور منتقل ہوگئیں ہیں۔
آپ کی محنت اور نیک نییتی کا صلہ اب تک ملرہا ہے۔ آپ کے اسٹوڈنٹس آپ کی عزت اور تعریف کیے بغیر تھکتے نہیں۔

ایک استاد کی کامیابی ہی یہی ہے کہ آج وہی شاگرد آپکو اچھے لفظوں میں یاد کرتے ہیں۔

1 comment:

  1. Others opinion, speak language of his profession/ field. It is general writing to make it media writing find some new angle, interesting aspect of life which is otherwise not known

    ReplyDelete