Monday 26 October 2015

Profile of Sohail Sangi by Simra


 سہیل سانگی ۔۔ پروفائیل سمرہ شیخ 

تعارفی پیرا: 
سہیل سانگی سنیئر صحافی، کمیونسٹ اور سندھ یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے تجربہ کار استاد ہیں۔ وہ ایک عشرے سے زائدعرصہ انگریزی روزنامہ ڈان سے وابستہ ہیں۔ بقول نامور محقق بدر ابڑو کے وہ سندھی صحافت کے سدا نوجوان کردار ہیں۔ 

 خاندانی پس منظر: 
 تھرپارکرکے گاﺅں جنجھی میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنی طبع میں ٹپیکل تھری ہیں۔ تھر کا بارشوں سے گہرا رشتہ ہے۔ ان دوست بتاتے ہیں کہ تھر میں بارش ہو یا قحط دونوں صورٹوں میں وہ پریشان ہو جاتے ہیںسہیل چاہے کہیں بھی ہوں رات کو اگر بارش ہو جائے تو انہیں نیند نہیں آتی۔ 

 تعلیمی سفر:
 اپنے آبائی گاﺅں جننجھی سے آٹھویں تک تعلیم حاصل کی۔ چونکہ تب ان کے گاﺅں میں ہائی اسکول نہیں ہوتا تھا اس لئے انہیں نویں اور دسویں جماعت پڑھنے کے لئے تحصیل ہیڈ کوارٹر چھاچھرو آنا پڑا۔ انہیں تعلیم حاصل کرنے کا بے حد شوق تھا۔ لیکن والدین کی غربت آڑے آئی۔ نتیجے میں تین بھائیوں میں سے صرف ایک یعنی سہیل صاحب کو ہائی اسکول چھاچھرو بھیجا گیا۔ اس بات نے ان پر گہرے اثرات چھوڑے اور ان کا ذہن تبدیلی لانے کی طرف سوچنے لگا۔ جس نے آگے چل کر ان کو کمیونسٹ بنا دیا۔

میٹرک کے بعد تھر میں قحط پڑا، وہاں نہ روزگار کے ذرائع تھے اور نہ مزید تعلیمی سہولیات۔ انہوں نے ایک رشتہ دار کی مدد سے حیدرآبا د جانے کی ٹھانی۔ حیدرآباد میں پارٹ ٹائیم جاب کرتے رہے تاور شام کو مسلم کالج ( تب یہ کالج صرف آرٹس کالج ہوا کرتا تھا) انٹر تک پڑھائی کی۔ یہ دور سندھ میں بھرپور سیاسی سرگرمیوں کا دور تھا۔ سندھ میں طلبہ تحریک چل رہی تھی۔ ون یونٹ کے خلاف اور ایوب خان کی آمریت کے خلاف عوامی ابھار تھا۔سہیل سانگی بھی اس تحریک کا حصہ بن گئے اور انہوں نے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی طلبہ تنظیم سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس میں شمولیت اختیار کی۔ 

 بی اے کرنے کے بعد انہوں نےسندھ یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کیا۔ 

بنگال (مشرقی پاکستان) میں فوجی آپریشن ) کے وقت ملک بھر میں خاص طور پر سندھ میں تقریبا ہو کا عالم تھا۔ سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں خاموش ہو گئی تھی۔ تب کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان جس کی سندھ نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن ذیلی تنظیم تھی کو از سرنو منظم کرنے کا ٹاسک سہیل سانگی کو دیا۔ اور یوں وہ مشہور کامریڈ بن گئے۔ 

صحافت کا آغاز: اپنی طلبہ تنظیم کی خبریں اخبارات کو دیتے تھے اس وجہ سے ان کی صحافیوں اور صحافتی دنیا سے واقفیت ہوئی۔ اور اس کے ساتھ ساتھ خبر بنانے کا فن بھی سیکھ لیا۔ طالب علمی کے زمانے میں ان کی تنظیم نے ایک ماہوار میگزین ” پرہ پھٹی“ نکالا۔ تو وہ اس کے ایڈیٹر بن گئے۔ یہ پرچہ ایک ڈیڑھ سال تک چلا، جس کے بعد بھٹو حکومت نے دوسے درجنوں سندھی جرائد کے ساتھ اس پر بھی پابندی عائد کردی۔ 
ایم اے کرنے کے بعد بھی وہ سیاسی سرگرمیوں میں شامل رہے۔ لیکن تب تک وہ تین بچوں کے ابپ بن چکے تھے۔ انہوں نے سرکاری ملازمت کرنے کی ٹھانی۔ محکمہ تعلیم میں کالیج لیکچرار کا کا انٹرویو دینے گئے۔ واپسی میں وہ اپنے دوست قاضی سلیم کے ساتھ ان کی گاڑی میں و ¿رہے تھ۔ دونوں دوست گپ شپ کرتے رہے۔ قاضی سلیم نے انہیںبتایا کہ وہ سندھی کا ایک بہت اچھا اخبار نکال رہے ہیں۔ اور انہیں کہا کہ اس اخبار میں انکا اہم کردار دینا چاہ رہے ہیں۔ دوسرے لمحے انہوں نے سپر ہائی وے پر سہیل سانگی کا ایم اے کا سرٹفکیٹ پھاڑ کے پھینک دیا۔ انہوں نے قاضی فیملی کا اخبار سندھ نیوز جوائن کیا۔ 

 1977 میں ضیاءالحق نے بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں مارشل لا لاگو کردیا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ سیاسی سرگرمیوں پابندی اخبارات پر سنسر شپ لاگو کردیا۔ جس کیو جہ سے نوزائیدہ اخبار سندھ نیوز سخت مالی بحران کا شکار ہو گیا۔ جولائی 1980میں اسکے مالکان نے اس کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ 

 اگلے ماہ سہیل سانگی کو مارشل لاء کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کرلای گیا۔ ان پر الزام تھا کہ وہ کمیونسٹ پارٹی کے لیڈروں کے ہمراہ ضیاءالحق کی مارشل لا ¾ حکومت کا تختہ الٹ کر ملک میں اشتراکی نظام (سوشلزم) لانا چاہتے تھے۔ ان پر خصوصی فوجی عدالت میں مقدمہ چلا گیا۔ یہ مقدمہ جو بعد میں جام ساقی کیس کے نام سے مشہور ہوا اس میں بینظیر بھٹو، ولی خان، غوث بخش بزنجو، معراج محمد خان اور دیگر چیدہ چیدہ سیاستدان اور دانشور بطور صفائی کے گواہان کے پیش ہوئے۔ اس مقدمے نے خود ایم آرڈی کی تحریک پر بھی گہرا اثر ڈالا۔

 مشہور دانشور اور ادیب بدر ابڑو جو اس مقدمے میں سہیل صاحب کے ساتھ تھے ان کا کہنا ہے کہ فوجی عدالت میں مقدمہ کس طرح سے لڑا جائے اس کی تمام حکمت عملی سہیل سانگی نے تیار کی تھی۔ اور وہ ہر سماعت پر تمام قاانونی پہلوﺅں کا مطالعہ کر کے آتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ سہیل نے فوجی عدلات کے سامنے دھیمے لہجے میں لیکن سخت باتیں کیں۔ 

سہیل سانگی پانچ سال تک جیل میں رہے۔ انہیں 1985 میں رہائی ملی۔ ان پانچ سال کے دوران ان کے اہل خانہ کو سخت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا اور بچوں کی تعلیم بھی متاثر ہوئی۔ رہائی کے بعد انہوں نے از سرنو زندگی شروع کی۔ بطور صحافی کام کرنے لگے۔ 
 سگریٹ نوشی: 
وہ بتاتے ہیں کہ گیارہویں جماعت میں انہوں نے سگریٹ نوشی شروع کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب وہ حیدرآباد میں کالج میں پڑھ رہے تھے۔ وہ والدین سے دور تھے، کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا۔ آہستہ آہستہ عادت بن گئی۔ ابھی ایک سے ڈیڑھ پیکٹ سگریٹ پھونک دیتے ہیں۔ 
سفر اور سیاحت کا شوق: 
آپ کو سفر کا بہت شوق ہے۔ سندھ کا شاید ہی کوےءعلاقہ یا چھوٹا شہر ہو جو انہوں نے نہ دیکھا ہو اور جہاں ان کی جان پہچان نہ ہو۔ وہ برطانیہ، مالدیپ، بنگلا دیش اور ترکمنستان کا بھی سفر کر چکے ہیں۔ اب بھی چھٹیوں میں سندھ کے کسی نہ کسی علاقہ کو دوبارہ وزٹ کرتے رہتے ہیں۔ 
 سہیل سانگی نے صحافت میں کئی نئے تجربے کئے اورہمیشہ نیا پن دیا۔ انہوں نے ماحولیات، آثار قدیمہ، انسانی حقوق وغیرہ کو بھی خبر وں کا موضوع بنایا۔ جو اس سے پہلے خاص طور پر سندھی اور اردو صحافت میں خبر کے موضوع نہیں تھے۔ ان کی صحافت مزاحمتی صحافت کہلاتی ہے۔ اور انہیں مزاحمتی صحافت کا بانی مانا جاتا ہے۔ سندھی کے پہلے کمپیوٹرائزڈ اخبارروزنامہ عوامی آواز کے بانی ایڈیٹر ہیں۔ ان کی ادارت میں عوامی آواز سندھی کا مقبول ترین اخبار مانا جاتا تھا۔ اس کے بعد انہوں ” ہفتہ روزہ آرسی“ کا اجراءکیا۔ یہ سندھی کا پہلا نیوز میگزین تھا۔ اور یہ پرچہ بہت مقبول رہا۔ 

اس سے پہلے انہوں نے حیدرآباد میں رہتے ہوئے علی حسن صاحب کے ساتھ مل کر ہفتہ روزہ منزل، ہفتہ روزہ بیداری، سچائی، اور روز نامہ سفیر ، روز نامہ عبرت، روز نامہ آفتاب، انگریزی اخبار” سندھ آبزرور“میں بھی کام کیا۔ روزنامہ سفیر اخبار کا تجربہ اس بنیاد پر کیا گیا تھا کہ حیدرآباد شہر کا پنا اخبار (سٹی) ہونا چاہئے۔ 

وہ بی بی سی اردو سروس ریڈیو اور آن لائن کے پینل پر بھی رہے۔ ڈان ڈاٹ کام ویب سائیٹ پر بلاگ اور سیاسی تجزیے لکھتے رہے۔ آج کل کے ٹی این کے اینکر پرسن ، اردو اخبار ”روزنامہ نئی بات“ اور سندھی اخبار ”روز نامہ کاوش“ کے نامور کالمسٹ ہیں۔

 آپ کے دوستوں کا کہنا ہے کہ ان کا صحافت میں بڑا کنٹری بیوشن یہ ہے کہ انہوں نے بڑی تعداد میں سیاسی کارکنوں کو صحافی بنایا جس کی وجہ سے سندھ صحافت کا رنگ بدل گیا۔ 

 سہیل سانگی ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں اور مختلف موضوعات پرسینکڑوں کی تعداد میں مضامین، کالم، اداریے لکھے ہیں۔ 
 سہیل سانگی بہت ہی سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ ۔ فضول خرچی کا شوق نہیں۔ کھانے پینے کے معاملے میں بہت ”چوزی“ ہیں۔ گفتگو میں
 دھیمہ لہجہ اور سادہ الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔” خاصا “ لفظ تقریبا ان کا تکیہ کلام ہے۔ 

انکا ڈولپمنٹ سیکٹر میں بھی کنٹریبیوشن ہے۔ وہ بعض غیر سرکاری تنظیموں کے مشاورتی بورڈ پر رہے۔ انسانی حقوق، میڈیا اور لائیف اسکل کے ٹرینر بھی رہے ہیں۔
 مزاج میں بہت اچھے ہیں وہ جس سے بھی مخاطب ہوں اس سے اسی عمر کے ہو کر بات کرتے ہیں۔ ہنسی مذاق بھی بھرپور کرتے ہیں جب ہنستے ہیں تو پورے دانت نظر آتے ہیں۔ اور جب ڈانتتے ہیں تو غصے والی آنکھیں۔ وقت کے بہت پابند، ویسے تو بہت ہی Loving ہیں لیکن بہت ہی کم لوگوں کو پسند کرتے ہیں۔ 

کلاس میں اس طرح پڑھاتے ہیں کہ باتوں باتوں میں پڑھا دیتے ہیں۔ سیکھنے والے طلبہ پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ اور انہیں بھرپور طریقے سے سکھاتے ہیں اور مدد کرتے ہیں۔ سینئر اسٹوڈنٹس کا کہنا ہے کہ سر سانگی ” گوگل“ ہیں۔ جو پوچھے فٹافٹ جواب مل جاتا ہے۔ 

سہیل سانگی جیسے بظاہر خوش مزاج اور ہنس مکھ ہیں اندر سے اتنے خوش نہیں۔ ماضی میں مشکل وقت گزارا، ، ماضی کی یادیں، رفیق حیات کی بے وقت موت کا غم ۔۔ ( خیال رہے کہ انہوں نے پسند کی شادی کی تھی) ان چیزوں کی افسردگی اکثر ان کی آنکھوں اور چہرے پر نظر آتی ہے لیکن پھر بھی سہیل سانگی اپنی عمر گزارنے میں اور اپنی صحافی بننے پر خوب اچھی طرح اب تک بھی کام کرتے ہیں ۔ 

سندھی صحافت میں اختلاف رائے کا اظہار کے حامل مانے جاتے ہیں۔ حیدرآباد کے سینئر صحافی علی حسن کا کہنا ہے کہ وسائل پر لوگوں کے اختیار کے معاملے میں ایک مقصد کے تحت پہلے سیاسی کارکن کے طور پو اور بعد میں بطور صحافی اپنی جنگ جاری رکھی۔ اور ان کا قلم اور ان کی صحافت کبھی کسی کے تابع نہیں رہے۔ 

 پنچ لائن: 
 سانگی کے حالات زندگی سے ایک بات ہم سیکھ سکتے ہیں کہ جو بھی کام کرو اس پر اعتماد اور اطمینان کرنا ضروری ہے۔ محنت رنگ لاتی ہے ہاں کبھی دیر سویر ہو جاتی ہے۔

MC/93 SIMRA NASIR 

3 comments:

  1. i am amazed the way you described Sir Sangi's life. very appreciated Simra

    ReplyDelete
  2. It is amazingly good profile I would say you have really good observation skills but as I had spend a lot of time with Sir Sangi so I would like to add few interesting things. Firstly he doesn't only encourage the good student but he also supports the non-rational students. At the end of the session at least in newspaper production you will not find any single student who doesn't know how to make news. He has various tactics to do that and one of the most observed is, he makes them to work in what ever capacity and other is he helps them to get good internship where they can learn. There are a lot of things to share about sir Sangi's magnificent personality but I am editing as I learned from him to make it short and interesting ;). He has amazingly good talent of linking every problem every topic with jokes which can help you to understand it, and you can never win in argument from him :) other hand he is just so brave and good actor; but finally writer of this profile exposed his inner soul. He is amazing teacher and wonderful friend, on whom you can trust that he will be there if world stands against you.
    Saj
    University of Joseph Fourier
    Grenoble, France

    ReplyDelete
  3. One more thing, sir doesn't only help student in educational and professional matters but also supports in personal issues. And as long as I am concerned I got my first job just because of him. He took me to the office though I was quite lazy to do that. ;)

    ReplyDelete