Tuesday 6 October 2015

Profile of Imtiaz Ahmed by Saira


خود اعتمادی کامیابی  بنی- امتیاز احمد   

Profile by : SAIRA NASIR

2K14/MC/84


   مکمل جسمانی قوت کے ساتھ دنیاوی کامیابی حاصل کرنے والوں کو تو دنیا بہت سرآہتی ھے ۔مگر وہ لوگ جو جسمانی طور پر کمزور ہوں ، دنیا انہیں طـعنے دے دے کر موت کی گھاٹ اٌتار دیتی ھے یا پھر پستی کے اندھیروں  میں دھکیل دیتی ھے جہاں سے کامیابی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی مگر انہیں اندھیروں، کمزوریوں کو پار کر کے جو کامیابیوں کی راہ پر نکلتے ہیں اصل میں وہی لوگ تعریف اور سر آہنے کے قابل ہوتے ہیں۔ انہیں کی ایک مثال امتیاز احمد ہیں جن کا قد دو فٹ پانچ انچ ہے۔ جو اپنے نام سے ذیادہ ' بونے' یا 'کوڈو' کے نام سے جانے جاتے ہیں۔   انسان نہ ہی اپنی عمر سے بڑا ہوتا ہے، نہ عہدے ،قد، دولت، نسل یا جنس سے، انسان اپنی سوچ اور عمل سے بڑا ہوتا ہے اور امتیاز احمد کی سوچ نے ہی اںھیں قابل اور کامیاب انسان بنایا۔  

امتیاز احمد نے ۲۱ نومبر ۱۹۷۹ میں فیاز احمد کے گھر میں آنکھ کھولی۔ آپ کا تعلق کسی امیر و کبیر بالاسعی تعدد گھرانے سے نہیں تھا بلکہ آپ کی والد صاحب کی جوتوں کی دکان تھی۔ اس غریب گھر کے لیے آزمائش کی گھڑی تب آئی جب ڈاکٹر نے امتیاز احمد کی پیدائش پر خبر سنائی کہ بچہ معزور ہے اور چل پھر نہیں سکتا اور انہیں دو مہینوں کے لیے پاوں میں پلاسٹر لگا دیا گیا۔ آٹھ بہن بھائیوں میں امتیاز احمد کا نمبر سب سے آخری تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ تمام گھر والوں کی توجہ کا مرکز  بنے رہے۔ باقی بچوں کی طرح آپ بھی بچپن میں شرارتی تھے مگر پاوں کی کمزوری کے باعث آہستہ آہستہ کھیل کود کیا کرتے تھے۔  

   خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے 
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

آپ نے اپنی کمزوری کی وجہ سے بھیک کا پیالہ ہاتھ میں پکڑنے کے بجائے تعلیم پر توجہ دی اپنی قابلیت کا لوہا منوایا اور عزت و وقار والی زندگی جینے کو ترجیح دی۔ظاہری جسامت کمزور ہونے کے باٰعث پیدا ہونے والے مساءل کو نظر انداز کر کے آپنے اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ سکول جانا شروع کیا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی اسکول سے حاصل کی پھر بی کام ڈگری کالج سے کیا اور ساتھ ساتھ DIT (Diploma in Information Technology) بھی کیا۔  امتیاز احمد کا اپنے والد کے ساتھ بے انتہا لگاو اور انکے ساتھ زیادہ وقت گزارنے کی وجہ سے آپ نے اپنے والد سے چشمے بنانے کا ہنر سیکھا۔ 
والدین بچوں کو انگلی پکڑکر چلانا سیکھاتے ہیں  پر ایک وقت آنے پر انھیں خود چلنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن امتیاز احمد اپنی جوانی تک اپنے والدن کی انگلی پکڑ کر چلتے تھے۔ آپ اور لوگوں کی طرح تیز رفتار نہیں لیکن آہستہ آہستہ چلتے ہیں کیونکہ آپکا ماننا ہے کہ ''آہستہ آہستہ ہی سہی مسلسل چلنا کامیابی کی ضمانت ہے''۔

'' ملیں گی ہم کو بھی اپنے نصیب کی خوشیاں اب انتظار ہے کب یہ کمال ہوتاھے'' اگر انسان کی لگن سچی ہو تو راستے میں آنے والے پتھر کو بھی اللہ تعالی پتھر کی مورتی بنا کر تقدس کا مقام عطا کر دیتا ہے۔ اور انسان کی لگن سچی ہو تو اللہ تعالی با عزت اور با شرف مقام عطا کر دیتا ہے۔ آپ کہتے ہیں :'' کہ جب میرے باقی ساتھیوں اور ہم عمروں کی شادیاں ہو رہی تھیں تب میں صبر کرتا تھا اور خدا پر توکل کرتا تھا۔ کیونکہ آپکی والدہ ہمیشہ دلاسہ دیتی تھیں اور کہتی تھیں کہ مٹی والا جب مٹی کے سارے برتن لے کر بیچنے نکلتا ہے تو پہلے اعلی اعلی اور خوبصورت برتن بک   جاتے ہیں لیکن آخر میں وہ برتن بھی بک جاتا ہے جو تھوڑا defected  ہوتا  ہے۔ آپ نے اپنی والدہ کی اس مثال کو زندگی کا اہم حصہ بنا لیا اور اپنے نصیب میں بہتری کا انتظار کیا۔
خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں،جسمانی ساخت کے نا مناسب ہونے کے با وجود
 اللہ نے انکو زندگی کا ساتھی انکی مرضی اور منشا کے مطابق عطا کیا۔ اور زندگی کے ساتھی کے ساتھ ساتھ اللہ نے انھیں دو بچے بھی عطا کیے جو انکی دیکھ بھال میں انکا ساتھ دیتے ہیں جنہوں نے آپکو بھرپور زندگی کا احساس دیا۔ آپکے پہلے بیٹے کی پیدائش پر خدا نے آپکو سرکاری ملازمت سے نوازا۔ جس کی joining  کے لیے آپ کو کراچی جانا پڑا۔ خدا کا نام لے کر اور حوصلہ بلند کر کے ڈھائی فٹ قد کے ساتھ جن مشکلات کا سامنا کر کے آپ صبح لوکل بس کا سفر کرتے تھے۔ جہاں بہترین جسامت کے لوگ بھی ہار جاتے ہیں وہاں آپ نے روزانہ سفر طے کر کے پیسا کمایا ور انتھک محنت کر کے اپنا تبادلہ حیدرآباد میں کروایا۔ آپ آج کل ایف جی اسکول کے کمپیوٹر سیکشن میں ہوتے ہیں۔
حادثے بھی شعور رکھتے ہیں
ڈھونڈھ لیتے ہیں غم کے ماروں کو

زندگی کے اتنے امتحانات کے با وجود آزمائشیں آپکا در نہیں بھولی اور ایک اور امتحان آپکی اولاد بنی جب پتاہ چلا کہ آپکا چھوٹا بیٹا بھی آپکی طرح معزوری کا شکار ہے، اور چل پھر نہیں سکتا آپ اپنے بیٹے کے ہر طرح کے علاج کے لیے کوشاں ہیں  اس عزم کے ساتھ کہ:'' زندگی میں جو لوگ کوشش نہیں کرتے،وہ کبھی کامیاب نہیں ہوتے ''

 امتیاز احمد سے جب پوچھا گیا کے آئینے میں خود کو دیکھ کر کیا آپکو خدا کی ذات سے شکایت نہیں ہوتی؟؟
آپ مسکرائے اور سیرت کی خوبصورتی کو صورت کی خوبصورتی پر ترجیح دیتے ہوئے جواب دیا کہ: خوبصورتی کی کمی کو اخلاق پورا کر سکتا ہے مگر اخلاق کی کمی کو خوبصورتی پورا نہیں کر سکتی۔ 
امتیاز احمد معاف کر دینے اور جلد کسی کے برے سلوک اور برے عمل کو بھول جانے کی عادت کے مالک ہیں آپ بتاتے ہیں کہ آپکے نا مناسب قد ہونے کے باعث آپکے بہن بھائی اکثر کم ظرفی کا مظاہرہ کر جاتے ہیں اور آپکی حق تلفی کر جاتے ہیں لیکن آپنے انکی ان باتوں کو کبھی دل میں نہ رکھا بلکہ ہمیشہ معاف کر دیا کیونکہ آپکا ماننا ہے کہ  معاف کر دینے سے آپکی اپنی روح پاک ہو جاتی ہے ۔ آپکے اعلی اخلاق اور اچھی خوبیوں کی وجہ سے آج آپکے گرد والدین کی سر پرستی نہ ہونے کے باوجود بھی بہن بھائیوں، دوستوں، علاقے،دفتر کے لوگوں اور پیاروں کا ہجوم ہے۔ جو آپکو کبھی مشکل وقت میں اکیلا نہیں چھوڑتے اور آپکی ہر آن مدد کرتے ہیں ۔ 

آپکا پسندیدہ مشغلہ  Hollywood Action Movies دیکھنا ہے۔ آپکا کہنا ہے کہ انگریزی ایکشن فلموں میں ایک ٹرگٹ ہوتا ہے جس کو وہ تمام  مشکلات اور سنگین تر مراحل کو پار کر کے حاصل کرتے ہیں اور بار بار ناکام ہونے کے باوجود آخر کار کامیابی حاصل کر ہی لیتے ہیں۔ آپ بھی جب مایوس  یا دلبرداشتہ ہوجاتے ہیں تو ان فلموں سے سبق لیتے ہیں اور پھر نئے عزم اور امید کے ساتھ آگے لے کر چلتے ہیں کہ اگر حوصلے بلند ہوں تو ہاری ہوئی بازی بھی جیتی جا سکتی ہے اور اگر عزم و ہمت سے کام لیا جائے تو مسلط ہوتی ہوئی شکست بھی فتح میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔۔۔


October 2015 BS-II
Practical work carried out under supervision of Sohail Sangi
Department of Media and Communication Studies, Sindh University  

2 comments:

  1. thats called perfect profile

    ReplyDelete
  2. This comprises of ur observation and talk with the personality, Its is good but, Opinion/ views of friends, colleagues and others are important in profile. How others view him?

    ReplyDelete