Tuesday 3 November 2015

ٹنڈو محمد خان میں اجرک سازی

feature on Ajrk sazi in TMK topic and ur hard work for pix is good.

But the format in which u wrote is not Feature format
Its intro should be catchy and interesting, attractive
Feature is always reporting based. U should have talked with the related people and put their quotes ) attribution) in it. Expert opinion etc. Presently ur feature is based on secondary data or ur obervation

انعم شیخ
رول نمبر:07
بی-ایس- اا


اجرک کالونی ٹنڈو محمد خان


اجرک سندھ کی ثقاف اور پہچان ہے۔ سندھ  میں اجرک کا استعمال قدیم زمانے سے کیا جارہا ہے۔ موئن جو دڑو سے جو آثار

 ملے ہیں ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اجرک ان کے پہناوے کا ایک اہم حصہ رہی ہے ۔ سندھ میں اجرک خوشی ہو یا غم، پیدائش ہو یا موت ہر کام میں استعمال کی جاتی ہے اور بہت معتبر اور عظیم  سمجھی جاتی ہے۔


ٹنڈو محمد خان میں اجرک کالونی ،وزیراعظم محمد خان جونیجو کے حکم سے ضیالحق کی صدارت کے دور میں قائم کی گئ تھی جسکا بنیادی مقصد سندھ کی ثقافت کی بقاۓء اور ترقی تھا۔

 اجرک کالونی میں 32 دکانیں بنائیں اور اسی کے ساتھ وہاں کے کاریگروں کو رہائیش مہیا کی  گئی تھی۔ کالونی کے درمیاں بچوں کے لیے میدان بھی بنایا ہوا تھا کھیلنے کیلئے۔


 جونیجو کی حکومت  کے بعد جیسے ہی دوسری حکومت آئ تو اجرک کے کاریگروں سے ان کے گھر چھین لیے گئے اور ان کے گھروں کو فروخت کردیا گیا ، میدان جو بچوں کے کھیلنے کےلیے تھا وہ تک بیچ دیا گیا، اور وہاں مدرسہ ‍قائم کردیا گیا۔ اجرک کالونی کے کاریگر جو دکان مالک تھے محض مزدور بن کر رہ گئے۔


محمد خان جونیجوکے دور سے اب تک کسی بھی بڑی شخصیت نے اجرک کالونی کا دورہ  نہیں کیا۔  مقامی اے-سی، ڈی سی یہاں کا دورہ  کرتے ہیں  مگر کوئی بھی ان مزدوروں کی کا پرسان مال نہیں۔ اب اس کالونی کا یہ حال ہے کہ اس کی کچھ

دکانوں کی چھتیں گر چکی ہیں۔

اجرک کے مزدورون کا اپنا کچھ بھی نہیں سب ٹھیکیداروں کے ہاتھ میں ہے جو مزدورون کو اجرت دے کر اجرک بنواتے ہیں۔ اور ملک کے مختلف شہروں میں فروخت کرتے ہیں۔



  اجرک کی تیاری اور چھپائی 

 سندھ  کا ایک خاص ہنر ہے۔ اجرک کو بنانے کے لیۓ بڑی محنت اور مہارت درکار ہے۔ چودہ مشکل مراحل سے گزر کر اجرک مکمل ہوتی ہے۔  اجرک کی فرائی کے پانچ مراحل ہیں ہر ایک مرحلے میں الگ قسم کے ٹھپے لگائے جاتے ہیں۔ تقریباّ  2500ٹھپے لگانے کے بعد اجرک مکمل ہوتی ہے۔  اجرک کی تیاری میں 16مصالحوں کا استعمال  ہوتا ہے۔ڈیزائین اور کے رنگوں کی دس سے زائد اقسام ہیں۔ جن کے مختلف نام ہیں۔ اجرک کے لیے سوتی یا لیلن کے کپڑے کا استعمال ہوتا ہے۔ اجرک کی موجودہ قیمت 1200 ہے  ۔ٹیکسٹائیل ملز میں بھی اجرک بنائ جاتی ہے مگر  وہ صرف  پرنٹ ہوتی ہے جو 300 روپے تک میں دستیاب ہے۔ جو کہ اصل اجرک کی فروخت کے نقصان کا سبب بن رہی ہے۔


اجرک کالونی کے مزدوروں کی حالت  اتنی  پسماندہ ہے کہ  اس بہترین ہنر کے ہونے کے باوجود اپنے گھر کا بنیادی خرچہ  پورا نہیں کر پاتے۔ اور اس کام کے انھیں چالیس سے ستر تک پیسے دیے جاتے ہیں جو اس مہنگائی کے دور میں اہمیت نہیں رکھتے۔  مزدور دن میں اجرک بناتے اور شام میں کوئی  سموسے پکوڑوں کا ٹھیلہ لگاتا یا کسی کی دکان پہ محنت مزدوری کرتا ہے ان کی اولاد بھی اسی طرح مزدوری کرتی ہے ان کی اولاد اکثروبیشتر تعلیم جیسے زیور سے محروم رہتی اور بنیادی وجہ گھر خرچ کے لیے ،دو وقت کی روٹی کے لیے ان کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہوتا جو ان کی تعلیم پہ صرف ہو

سکے۔ کم عمری میں لکھنے پڑھنے،کھیلنے کودنے کے بجاۓ یہ اپنے والدین کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ 

سندھ کی ثقافت کا یہ ہنر جو کہ پوری دنیا ،امریکہ، برطانیہ اور دوسرے دیگر ممالک میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اب اسکا مستقبل اندھیرے میں نظر آتا ہے۔




This practical work was carried under supervision of Sir Sohail Sangi  
 ----------------------- FIRST VERSION ----------------------------------------------------

آپ کو اس پر اپنا نام، رول نمبر، کلاس، تاریخ اور صنف کونسی ہے لازمی لکھنا چائے۔
 اس کے فوٹو بھی چاہئیں۔
 آپ اگر کسی دوسرے کی میل سے بھیجیں گی تو جو ہدایات ہونگی وہ آپ تک کیسے پہنچیں گی؟ گزشتہ کلاس میں اس موضوع پر لمبی بات ہوئی تھی کہ اس سے کیا کیا مساےل پیدا ہوتے ہیں۔ آپ کو پھر بھی سمج میں نہیں آیا 

اجرک سندہ کی ثقافت اور پہچان ہے، سندہ مین اجرک کا استعمال قدیم زمانے سے کیا جا رہا ہے۔ موئن جو دڑو سے جو آثار
 ملے ہین ان سے یہ ثابت ہو تاہے کہ اجرک ان کی پہناوے کا ایک اہم حصہ رہی ہے، سندہ مین اجرک خوشی ہو یاغم ، پیدائیش ہو یا موت ہرکام مین استعمال کی
جاتی ہے اور بہت معتبر اور عظیم سمجھی جاتی ہے۔
ٹنڈو محمد خان میں اجرک کالونی وزیراعظم محمدخان جونیجو کے حکم سے ضیاالحق کی صدارت کی دور مین قائیم کی گئے تھی، جس کا بنیادی مقصد سندھی ثقافت کی بقا اور ترقی تھا، اجرک کالونی میں ۳۲ دکانیں بنائی گئی اور اس کے ساتھ اجرک بنانے والے کاریگروں کو گھر بھی مہیا کئیے گئے اور کالونی کے درمیاں بچوں کے کھیلنے کے لئیے ایک میدان بھی بنایا گیا تھا۔ جونیجو کی حکومت کے بعد جسے ہی دوسرے حکومت آئی تو اجرک کے کاریگروں سے ان کے گھر بھے چھینن لئیے گئے اور ان گھروں کو فروخت کر دیا گیا ، ایک میدان جو کہ بچوں کے کھیلنے کے لیئے بنایا گیا تھا وہ بھی بیچ دیا گیا پھر جس نے وہ میدان خریدہ تھا ادھر ایک مدرسہ قائم کردیا ، اجرک کے کاریگروں جو کہ ان دکانوں کے مالک تھے صرف مزدور بن کر رہ گئے۔
محمد خان جونیجو کے دور سے اب تک کسی بھی بڑی شخصیت نے اس کالونی کا دورہ نہیں کیا، مقامی ’ای سی‘ ’ڈی سی‘ ادھر چکر لگا لیتے ہیں مگر کوئی بھی ان مزدوروں کا پرسان حال نہین ۔ اب اس کالونی یہ حال ہے کے اس کی کچھہ چھتیں بھی گر چکی ہیں۔ اجرک کے مزدوروں کا اپنا کچھ بھی نہیں سب ٹھیکے داروں کے ہاتھ میں ہے، جو مزدووں کو اجرک دے کر اجرک بنواتے ہیں اور انہیں فروخت
کرنے ملک کے مختلف شہروں میں لے جاتے ہیں۔
اجرک کی تیاری اور چھپائی سندہ کا ایک خاص ہنر ہے، اجرک کو بنانے کے لئیے بڑی مختلف مہارت کی ضرورت ہوتی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتا کہ اجرک چودہ مختلف مراحل سے گزر کر مکمل ہوتی ہے، صرف اجرک کی چرائی کی پانچ مراحل ہوتے ہیں ہر ایک مراحلے میں الگ قسم کے ٹھپے لگائے جاتے ہیں اور اجرک کے مکمل ہونے کیلئے تقریبں ۲۵ سﺅ ٹھپے لگائے جاتے ہیں، اور اس کے الاوہ اجرک کی تیاری میں تقریبن ۱۶ مسالے استعمال ہوتے ہیں، ڈزائین اور رنگ کے لحاظ سے اجرک کی ۱۰ سے زائد قسمیں ہوتی ہیں اور ان کے نام بھی الگ الگ ہوقتے ہیں، اجرک بنانے کیلئے سوٹی یا پاپلین کا کپڑا استعمال ہوتا ہے، اصل اجرک کی قیمت تقریبن ۱۲ سﺅ ہے۔ ٹیکسٹائیل میل میں بھی اجرکیں بنتی ہیں مگر وہ صرف پرینٹ ہواوتا ہے، اور ۳ سﺅ روپے تک میل جاتی ہے، اس سے اصل اجرک کی قیمت اور فروخت کو نقصان ہوتاہے، اجرک کالونی میں مزدوری کرنے والے اجرک کے کاریگرون کی حالت نہایت خستا ہے، اجرک بنانے جیسے عظیم ہنر کہ جاننے اور اس کی کاریگری کرنی کی باوجود اپنے گھر کا بنیادی خرچ بھی پورا نہیں کر پاتے، مزدوری کے نام پر میلنے والے پیئسے، چالیس روپئی سے ستر روپئے ہوتے ہیں، جن سے اس مہنگائی کے دور میں گھر چلانا نا ممکن ہے اور اسی وجہ سے تمام مزدورشام میں دوسرہ کام کرتے ہیں، جسے کہ پکوڑوں کا ٹھیلا لگانا ، ڈبل
روٹی کباب بیچنا ، یا پھر کسی کے پاس نوکری کرنا۔
تعلیم حاصل کرنا انسان کا بنیادی کا حق ہے، لیکن ان کاریگروں کے بچے اس حق سے محروم ہیں، کھیلنے کودنے اور پڑہنی لیکھنی کی عمر میں یے بچے چھوٹی موٹی جگاﺅں پر نوکری کرتے ہیں
سندھ کی ثقافت کا یہ ہنر جو کہ پوری دنیا، آمریکا ، برطانیہ اور دیگر ممالکت مین بہت قدر کعو ¿ی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اب اس کا مستقبل بہت اندھیری میں نظر آرہا ہے
This practical work was carried under supervision of Sir Sohail Sangi     

No comments:

Post a Comment