Tuesday 3 November 2015

Old buildings in Qila area

حیدر آباد پکا قلعہ
، سال، تاریخ اور کونسی صنف ہے لکھنے کی زحمت کر لیتے۔ فوٹو بھی چاہئیں
 قدیمی عمارتیں
تاریخ گواہ ہے کہ دور ِ جدید میں بھی شہر حیدر آباد کے علاقے پکا قلعہ میں آج بھی کچھ عمارتیں ایسی ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں ۔ حیدر آباد کی تاریخ پکا قلعہ سے شروع ہوتی ہے جب محمد بن قاسم نے راجا داہر کو شکست دیکر قلعہ فتح کیا ۔پکا قلعہ کے علاقے کی پانچ گلیوں میں کچھ عمارتیں ایسی ہیں جو پاکستان بننے سے پہلے ہندوﺅں نے تعمیر کی تھیںوہ آج بھی اُسی شکل میں موجود ہیں جو ہندوﺅں کی تہذیب و تمدن کا ایک شاہکار نمونہ ہے جس کو دیکھ کر نئی نسل حیران رہ جاتی ہے جب برِ صغیر کی تقسیم ہوئی تو ایک بڑی تعداد میں لوگوں نے پاکستان سے ہندوستان اور ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی اُس ہجرت کے نتیجے میں ہندوﺅں نے اپنی زمینیں جائیداد اور سب کچھ چھوڑ کر ہندوستان چلے گئے ہندوستان سے آنے والے مسلمان افراد کو وہ پراپرٹی فراہم کی گئی کیونکہ وہ مسلمان ہندوستان سے بے سر و سامان آئے تھے اس پراپرٹی کو Aueque Propertyکہا جاتا ہے ۔
ہندوﺅں کی بنائی ہوئی ایک عمارت جو پکا قلعہ میں واقع ہے جس کا نام چیمنداس منگھن مل ہے یہ عمارت سن 1938ءمیں ایک منگھن مل نامی شخص کی ہے جو ہجرت کرکے ہندوستان چلا گیا اب یہاں دوسرے افراد آباد ہیں یہ عمارت خاصا پرانی تو ہے مگر آج کی عمارتوں کی با نسبت بے حد مضبوط ہے چار سے پانچ کمروں پر مشتمل اور خاصا ایک بڑا صحن موجود ہے دروازے اور کھڑکیاں اصلی ریشم کی لکڑی سے بنے ہوئے ہیں سنگے مرمر کا ایسا کام اور دلکش ڈیزائن ہے جو آج کل دیکھنے میں نظر نہیں آتا۔ اس گھر کی دیواریں تقریباً تین سے چار انچ موٹی ہیں جس سے اُس کی مضبوطی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے یہ گھر دو منزلہ ہے۔
ایسی ہی ایک اور عمارت شانتی دھام جو کہ 1940ءتعمیر ہوئی دو منزلہ اِس عمارت کا ایک بڑا لکڑی کا دروازہ ہے جو آج بھی اُسی حالت میں موجود ہے باہر سے اِس گھر میں خاصا تبدیلیاں ہوچکی ہیں مگر اندر سے آج بھی اُسی حالت میں موجود ہے جو ہندو بنا کر گئے تھے آرکیٹیکچر کا ایسا کام ہوا ہے جو آج کی نسل کے لیے ایک شاندار نمونہ ہے ۔
ایک اور عمارت نام تاقی محل جو کہ سن1942ءتعمیر ہوئی تھی مین سڑک پر موجود یہ عمارت خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے اِس عمارت میں بہت سی تبدیلیاں ہوچکی ہے یہ عمارت دو منزلہ ہے اور باہر سے پوری طرح تبدیل ہوچکی ہے یہ عمارت آج کے دور کے لیے بہترین نمونہ ہے جو کہ بہت کم دکھنے میں آتا ہے ۔ بلال

پکا قلعہ میں پانچ گلیوںمیں آج بھی کچھ ایسی عمارتیں موجود ہیں جن کو دیکھ کر آج بھی انسانی عقل سوچ میں پڑجاتی ہے ہر ایک گلی میں دس مکانات ہے ایک مکان کے اندر سے ہی دوسرے مکان کا راستہ نکلتا ہے یہ عمارتیں آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی ہے کیونکہ لوگ اب اِ ن عمارتوں میں تبدیلیاں کرتے جارہے ہیں کچھ عمارتیں جن کے نام شانتی دھام جو کہ 1940ءمیں تعمیر ہوئی ، گھانومل سنز جو کہ 1943ءمیں تعمیر ہوئی ، پرسرام ہوندو مل جو کہ 1941ءتعمیر ہوئی ، ہیرا مینشن جو کہ 1940 ءتعمیر ہوئی اور بہت سی عمارتوں کا نام و نشان نہیں لیکن وہ وہاں موجود ہیں اور اُس دور کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔


محمد بلال حسین صدیقی
2K14/Media and Communication /57
This practical work was carried under supervision of Sir Sohail Sangi     

No comments:

Post a Comment