Thursday 12 November 2015

Chand Bibi Sultana Interview by Simra Shaikh

Chand Bibi Sultana Interview by Simra Shaikh 

 تاریخ ذاتی نظریات میں غلط ملط ہو کر رہ گئی ہے:ڈاکٹر چاند بی بی سلطانہ 
انٹرویو: ڈاکٹر چاند بی بی سلطانہ 

 سمرہ شیخ 
MC/93 SIMRA NASIR
 ڈاکٹر چاند بی بی سلطانہ نامور تعلیم دان ہیں وہ ڈائریکٹر پاکستان اسٹیڈیز سینٹر سندھ یونیورسٹی رہ چکی ہیں۔ انہوں نے ایم اے ہسٹری سندھ یونیورسٹی سے کیا اس کے بعد برٹش کونسل کی اسکالرشپ پرایم اے ایجوکیشن آکسفورڈبروک یونیورسیٹی انگلینڈ سے کیا۔ ڈاکٹر چاند بی بی نے دو کتابیں لکھیں ہیں ، ایم۔ایڈ اور بی ۔ایڈ جن کو 
سوال : تعلیم کا آغاز کہاں سے شروع ہوا اور تعلیمی سفر مےں کوئی مشکلات پیش آئےں؟
جواب : حیدرآباد کے مدرستہ البنات ہائی اسکول سے شروع کیاجس میں مجھے سماجی ثقافتی اور مالی مشکلات پیش آئی ۔حیدرآباد بہت چھوٹا شہر ہے اس زمانے میںپرائمری اور ہائی اسکول بہت کم ہوتے تھے جو بہت پرانے زمانے سے قائم شدہ تھے اس میں ہی داخلے ملا کرتے تھے اور تعلیم جاری رکھنا پڑھتی تھی اور وہ بہت فاصلوں پر ہوتے تھے مثال کے طو ر پر ٹرانسپورٹ بہت محدود تھے اور رہائش اور اسکول میں فاصلے بہت ہی طویل ہوا کرتے تھے یہ ساری مشکلات تھی ۔عام طور پر پیدل ہی جانا پڑتا تھا اس زمانے میں ٹانگے ہوا کرتے تھے جو کہ لڑکیوں کو پیدل جانے کے لئے گھر کے ایک افراد کا ساتھ ہونا ضروری ہوتا تھا جو کہ لے کرجائے اور اسکول چھوڑ کر آئے آج کے دور میں بھی لڑکی اکیلے اسکول نہیں جاسکتی یہ سماجی مسائل ہے جن کا تبدیل ہونا بہت ضروری ہے ثقافتی مسائل بھیی پیدا ہوتے ہیں اور جیسا کے مختلف قوموں میں لڑکیوں کو تعلیم دلانا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا مےرا تعلق بختیار زئی قبیلے سے تھا تو میرے والدین کو خاندانی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ 

سوال : اپنے مسلم ہسٹری میں پہلے ایم اے کیوں کیا؟
جواب:  میری والدہ کو ہسٹری (تاریخ) کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا اس لئے میرا نام تاریخی رکھا گیااور گھر میں تاریخی اور مذہبی رجحان بہت تھا اور والدہ تاریخی قصے سنایاکرتی تھیں تو میرا رجحان بھی اسلامی تاریخوں کی طرف ہوا اس لئے میں نے پہلے ایم۔ اے اسلامی تاریخ میں کیا۔

سوال : ہسٹری لکھی گئی اس سے آپ کتنی متفق ہیں کہ تاریخ کس طرح سے لکھی جائے نقاد کہتے ہیں کہ تاریخ صحیح طو رپر نہیںلکھی گئی ہے؟
جواب:  میں متفق ہوں کہ تاریخ ہر دور میں بادشاہ وقت کی خوشنودی کے لئے لکھی گئی ہے بہت سے واقعات مسخ ہوگئے ۔ آج بھی تاریخ خوش آمد یا انتقامت کے لئے لکھی جاتی ہے ہر ایک واقعہ مختلف لوگ مختلف نظرےات سے لکھتے ہیں لہذا تاریخ جو ہے ذاتی نظریات میںخالط و مالط ہوجاتی ہے لہذا صبح تاریخ کا اندازہ لگانا مشکل ہے نقاد اپنے نظریہ کی بات کرتے ہیں لہذا جو حالات اور واقعات حکمرانوں کے دور میں نظریاتی طور پر مختلف ہوں تو تاریخ سچے راستے سے ہٹ جاتی ہے۔ 

سوال : تاریخ کی نصاب میں کتابیں کیسی ہیںاور کس طرح کی ہو نی چاہئے ؟
جواب:  پاکستان میں بھی نصاب میں جو قدیم اور جدید تاریخ ہے وہ نظریات اور مختلف عقائد سے بھری ہوئی ہے لہذا نصاب میںجو تاریخ پڑھائی جائے وہ دین دنیا اور تاریخ اسلام کے کارناموں سے موزین ہونا چایئے آباﺅ اجداد کے تاریخی کارنامے ہوں اور ان کی بہادری کے قصے اور ملک چلانے کے مختلف کامےاب طریقے تہذیب و تمدن اور حکمرانی کے عامور کا عکس نصاب کی تاریخ میں ہونا چاہئے۔ 

سوال : ہسٹری کو ذیادہ تر سب اس لئے چھوڑ دیتے ہیں کہ اس کا اسکوپ نہیں آپ کیا کہتی ہیں اس کے بارے میں ؟
جواب:  تاریخ لکھنے والے مصنف تاریخ دانوں کو چاہئے کہ تاریخ رقم کرتے وقت اسے دلچسپی سے تحریر کریں تاکہ طالب علم اسے پڑھے اور پڑھنے میں دلچسپی لے ہمارے ملک میںتاریخ دانوں کی اس لئے کمی ہے کہ حالات اور واقعات کی سچائی ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔ 

سوال :طالب علموں کے لئے کوئی پیغام کہ وہ کس طرح سے اپنی زندگی کامیاب بنا سکتے ہیں؟
جواب:  کسی بھی ملک کا طالب علم اس ملک کا مستقبل ہوتا ہے اور اس کی قابلیت اور محنت سے ہی نہ صرف ملک چلتے ہیں بلکہ ادارے بھی چلتے ہیں اور اس کے خاندان بھی چلتے ہیںلہذا طالب علم کو محنت کرنی چاہئے اور محنت سے ہی پڑھ کر پرچہ حل کرے کیونکہ اس کو ہر وقت علم دینے اور ہر علم حاصل کرنے کا مراحلہ در پیش ہوتاہے۔ زمانہ طالب علمی میں زندگی کو موزم طریقے سے گزرنا چاہئے اور زندگی کے اصولوں پر عمل کرنا چاہئے ایمانداری جو زندگی کے لئے بہت ضروری ہے۔ ایمانداری ایک ایسا اصول ہے جس پر کبھی نقصان نہیں ہوتا دنیا میں جتنے بڑے لوگ گزرے ہیں ان کی زندگی کے بارے میں پڑھنا چاہئے کہ انہوں نے زندگی میں کیسے کامیابی ملی غرور اور تکبر سے دور رہنا چاہئے سوچ سمجھ کر بولنا چاہئے اور دوسروں کی عزت نصف کا خیال کرنا چاہئے اور اپنے استادوں کا احترام کرنا چاہئے اور والدین کی عزت اور قدر کرنی چاہئے کتابیں اور اخبار پڑھنا چاہئے۔ 

MC/93 SIMRA NASIR
---------------------
 تاریخ ذاتی نظریات مےں غلط و ملط ہو گئی ہے: ڈاکٹر چاند بی بی سلطانہ 
انٹروےو: ڈاکٹر چاند بی بی سلطانہ 
 سمرہ شیخ 
 ڈاکٹر چاند بی بی سلطانہ نامور تعلیم دان ہیں وہ ڈائریکٹر پاکستان اسٹیڈیز سینٹر سندھ یونیورسٹی رہ چکی ہیں۔ انہوں نے ایم اے ہسٹری سندھ یونیورسٹی سے کیا اس کے بعد برٹش کونسل کی اسکالرشپ پرایم اے ایجوکیشن آکسفورڈبروک یونیورسیٹی انگلینڈ سے کیا۔ ڈاکٹر چاند بی بی نے دو کتابیں لکھیں ہیں ، ایم۔ایڈ اور بی ۔ایڈ جن کو خیرپور یونیورسٹی کے کورس میں شامل کرلیاگیا ہے ۔

سوال: تعلیم کا آغاز کہاں سے کیا؟ اور تعلےمی سفر مےں کوئی مشکلات پےش آئےں؟
جواب : حےدرآباد کے مدرسہ البنات ہائی اسکول سے شروع کےا جس مےں مجھے سماجی ثقافتی اور مالی مشکلات مےں پےش آئی حےدرآباد بہت چھوٹا شہر ہے۔ اس زمانے مےں پرائمری اور ہائی اسکول بہت کم ہوتے تھے جو بہت پرانے زمانے سے قائم شدہ تھے اس ہی مےں ہی داخلے ملا کرتے تھے اور تعلےم جاری رکھنا پڑتی تھی اور وہ بہت فاصلوں پر ہوتے تھے۔ پر ٹرانسپورٹ بہت محدود تھی اور رہائش اور اسکول مےں فاصلے بہت ہی طوےل ہوا کرتے تھے۔ ےہ ساری مشکلات تھی۔ عام طور پر پےدل ہی جانا پڑھتا تھا اس زمانے مےں ٹانگے ہوا کرتے تھے جو کہ لڑکےوں کو پےدل جانے کے لئے گھر کے اےک افراد کا ساتھ ہونا ضروری ہوتا تھا جو کہ لے کر آئے اور اسکول چھوڑ کر آئے آج کے دور مےں بھی لڑکی اکےلے اسکول نہےں جاسکتی۔ ےہ سماجی مسائل ہے جن کا تبدےل ہونا بہت ضروری ہے ثقافتی مسائل بھی پےدا ہوتے تھے اور جےسا کے مختلف برادریوںمےں لڑکےوں کو تعلےم دلانا اچھا نہےں سمجھا جاتا تھا مےرا تعلق بختےار زئی قبےلے سے تھا تو مےرے والدےن کو خاندانی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ 

سوال: آپ نے مسلم ہسٹری مےں پہلے اےم اے کےوں کےا؟
جواب : مےری والدہ کو ہسٹری (تارےخ ) کتابےں پڑھنے کا بہت شوق تھا اس لئے مےرا نام تارےخی رکھا گےا اور گھر مےں تارےخی اور مذہبی رجحان بہت تھا اور والدہ تارےخی قصے سناےا کرتی تھےں تو مےرا رجحان بھی اسلامی تارےخوں کی تھا اس لئے مےں نے پہلے اےم اے اسلامی تارےخ مےں کےا۔

سوال: ہمارے ہاں تاریخ جس طرح سے لکھی گئی اس سے آپ متفق ہےں کہ تارےخ کس طرح سے لکھی جائے نقاد کہتے ہےں کہ تارےخ صحےح طو رپر نہےں لکھی گئی ہے؟
جواب: مےں متفق ہوں کہ تارےخ ہر دور مےں بادشاہ وقت کی خوشنودی کے لئے لکھی گئی ہے۔ بہت سے واقعات مسخ ہوگئے ۔ آج بھی تارےخ خوش آمد ےا انتقامت کے لئے لکھی جاتی ہے۔ ہر اےک واقعہ مختلف لوگ مختلف نظرےات سے لکھتے ہےں لہذا تارےخ جو ہے ذاتی نظرےات مےں غلط و ملط ہوجاتی ہے۔صحیح تارےخ کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ نقاد اپنے نظرےہ کی بات کرتے ہےں لہذا جو حالات اور واقعات حکمرانوں کے دور مےں نظرےاتی طور پر مختلف ہوں تو تارےخ سچے راستے سے ہٹ جاتی ہے۔ 

سوال: تارےخ کی نصاب مےں کتابےں کےسی ہے ا ور کس طرح کی ہو نی چاہئے ؟
جواب: پاکستان مےں بھی نصاب مےں جو قدےم اور جدےد تارےخ ہے وہ نظرےات اور مختلف عقائد سے بھری ہوئی ہے لہذا نصاب مےں جو تارےخ پڑھائی جائے وہ دےن دنےا اور تارےخ اسلام کے کارناموں سے موزےن ہونا چائے آباﺅ اجداد کے تارےخی کارنامے ہوں اور ان کی بہادری کے قصے اور ملک چلانے کے مختلف کامےاب طرےقے تہذےب و تمدن اور حکمرانی کے عامور کا عکس نصاب کی تارےخ مےں ہونا چاہئے۔ 

سوال: ہسٹری کو ذےادہ تر سب اس لئے چھوڑ دےتے ہےں کہ اس کا اسکوپ نہےں آپ کےا کہتی ہےں اس کے بارے مےں ؟
جواب : تارےخ لکھنے والے مصنف تارےخ دانوں کو چاہئے کہ تارےخ رقم کرتے وقت اس مےں دلچسپی سے تحرےر مےں ڈالے تاکہ طالب علم اسے پڑھتے اور پڑھنے مےں دلچسپی لے ہمارے ملک مےں تارےخ دانوں کی اس لئے کمی ہے کہ حالات اور واقعات کی سچائی ڈھونڈنے سے بھی نہےں ملتی۔ 

سوال : طالب علموں کے لئے کوئی پےغام کہ وہ کسی طرح سے اپنی زندگی کامےاب بنا سکتے ہےں؟
جواب : کسی بھی ملک کا طالب علم اس ملک کا مستقبل ہوتا ہے اور اس کی قابلےت اور محنت سے ہی نہ صرف ملک چلتے بلکہ ادارے بھی چلتے ہےں اور اس کے خاندان بھی چلتےہ ےں لہذا طالب علم کو محنت کرن چاہئے اور محنت سے ہی پڑھ کر پرچہ حل کرے کےونکہ اس ہر وقت علم دےنے اور ہر علم حاصل کرنے کا مراحلہ در پےش ہوتا زمانہ طالب علمی مےں زندگی کو موزم طرےقے سے گزرنا چاہئے اور زندگی کے اصولوں پر عمل کرنا چاہئے اےمانداری جو ہے زندگی کے لئے بہت ضروری ہے اےمانداری اےک اےسا اصول ہے جس پر بھی نقصان نہےں ہوتا دنےا مےں جتنے بڑے لوگ گزرے ہےں ان کی زندگی کے بارے مےں پڑھنا چاہئے کہ انہوں نے زندگی مےں کےسے کامےابی ملی غرور اور تکبر سے دور رہنا چاہئے سوچ سمجھ کر بولنا چاہئے اور دوسروں کی عزت نفس کا خےال کرنا چاہئے اور اپناے استادوں کا احترام کرنا چاہئے اور والدےن کی عزت اور قدر کرنا چاہئے کتابےں اور اخبار پڑھنا چاہئے۔
MC/93 SIMRA NASIR 
Simra Shaikh
This practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi


No comments:

Post a Comment