Saturday 7 November 2015

Saifal Malook jheel by Simra

[ Good. particularly compare and contrast with Sindh's lakes, this has localised it.attribution is missing. talk with people, shopkeepers, hotel owners, visitors etc, this would prove ur presence and visit of the lake. OR some quotes from famous travelogue.]

Saifal Malook jheel by Simrah Shaikh
             جھیل سیف الملوک

 فیچر تحریر: سمرہ شیخ

پانی جہاں بھی ہوتا ہے وہ پیا ر، محبت اور ثقافت کو جنم دیتا ہے۔ چاہے برفانی علاقہ ہویا ویران پہاڑ۔ جھیل سیف الموک10,600 فٹ کی بلندی پہ وادی کاغان میں واقع ہے جو عظیم ہمالیہ کے پہاڑی سلسلہ کا حصہ ہے۔یہ پاکستان کی تمام جھیلوں میں انتہائی خوبصورت، حسین، دلچسپ اور تسکین پسند جگہ ہے۔اس جھیل کی پہلی واضح خوبصورتییہاں کے پہاڑ ہیں جو برف کی اوڑھنیوں سے چھپے ہوئے ہیں۔اس جھیل کا نام مصر کے شہزادے ”سیف“ پر رکھا گیاتھا۔ سیف بہت خوبصورت لڑکا تھا اور یہ جھیل سیف اور اس کی محبوبہ بدرالجمال جو ایک پری تھی ان کی کہانی سے اور یہاں کی حسین وادیوں سے جھیل سیف الملوک بہت مشہور ہے۔
 پریوں کے قصے صرف کوہ قاف کے جبلوں تک ہی محدود نہیں ۔ سندھ کے کھیرتھر کی پہاڑیوں میں واقعہ تاریخی قلعہ رنی کوٹ میں بھی ایک چشمہ بہتا ہے، اس کے لئے بھی کہا جاتا ہے کہ اس چسمے کے تالاب میں چاند کی چودھویں کو پریاں اتری ہیں۔ اس تالاب کا نام ہی پریوں کا تالاب رکھا گیا ہے۔ 

  بات گلگت بلتستان کی ہو یا سندھ کی۔ یہاں کینجھرجھیل بھی بلکل جھیل سیف الملوک سے ملتی جلتی ہے۔اس جھیل کی گہرائی8 میٹر، لمبائی24کلو میٹر، 6 کلو میٹرچوڑائی ہے اوریہ جھیل کل 13,468رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ کینجھر جھیل ٹھٹھ سے22کلو میٹرکے فصلے پر واقع ہے۔ کینجھر جھیل کی مثال بھی جھیل سیف الملوک جیسی ہے یہاں بھی ایک شہزادے ”جام تماچی“کی محبت ”نوری“ سے ہوئی جو ایک مچھیرن تھی۔ کینجھر جھیل دو جھیلوں سے مل کر بنی ہے اور یہ پاکستان کی دوسری بڑی جھیل ہے جس سے لوگوں کو پینے کا تازہ پانی فراہم کیا جاتا ہے۔عام جھیلوں سے کینجھر جھیل کا پانی نیلاہے اور یہ بھی ایک خوبصورت جگہ ہے اس جھیل کے بیچ میں نوری جام تماچی کی قبر موجود ہے۔

 کینجھر جھیل اب ٹھٹھ، حیدرآباد اورکراچی کے لوگوں کے لیے تفریح گا ہ بنا ہوا ہے اور جھیل سیف الملوک پر ملک بھر سے لوگ یہاں پر گھومنے آتے ہیں اور سیف اور بدرالجمال کی کہانی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ چاند کی جب چودھویں تاریخ ہوتی ہے۔
 تویہاں پریاں اترتی ہیں اور چاند جیسے جھیل پراک flash light کی طرح روشنی دے رہا ہوتا ہے اور جھیل ایک آہینہ کی مانند نظرآتی ہے جو پہاڑوں کی خوب صورتی کے عکس کو چارچاند لگادیتی ہے،آسمان پر ستارے چمکتے رہتے ہیں ۔جھیل سیف الملوک صرف خوب صورت ہی نہیں بلکہ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ یہ روحانی خوب صورتی ہے جو اب تک ہر چیز کی حقیقت کو واضح کررہی ہے۔ 



 قریبی قصبہ ناران سے بذریعہ جیپ یا پیدل اس خوبصورت جھیل تک پہنچا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اس دیکھنے کے لئے آتے ہیں۔ ملکہ پربت اور دوسرے پہاڑوں کا عکس اس میں پڑتا ہے۔ سال کے کچھ مہینے اس کی سطح برف سے جمی رہتی ہے۔

 نالوں، جھیلوں، آبشاروں، چشموں اور گلیشیئروں کی یہ وادی موسم گرما (مئی تا ستمبر) میں سیاحوں کی منتظر رہتی ہے۔ مئی میں یہاں کا زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 11 اور کم از کم 3 درجہ سینٹی گریڈ رہتا ہے۔ جولائی کے وسط سے ستمبر کے اختتام تک ناران سے درہ بابوسر کا راستہ کھلا رہتا ہے۔ برسات اور موسم سرما میں وادی میں نقل و حمل مشکل ہو جاتی ہے۔ اس حسین وادی تک بالاکوٹ، ایبٹ آباد اور مانسہرہ سے باآسانی رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ بالاکوٹ سے با آسانی بسوں یا دیگر ذرائع نقل و حمل سے کاغان یا ناران پہنچا جا سکتا ہے۔ بالاکوٹ سے ناران تک کے تمام راستے میں دریائے کنہار ساتھ ساتھ بہتا رہتا ہے اور حسین جنگلات اور پہاڑ دعوت نظارہ دیتے رہتے ہیں۔

   کاغان سے جھیل سیف الملوک کا راستہ1گھنٹہ کا ہے ۔لوگ پرائیوٹ ٹرانسپورٹ کے ذریعے جاتے ہیںاور وہاں صرف جیپ کے علاوہ اور کوئی بھی گاڑی نہیں جاسکتی کیوںکہ جھیل تک پوچھنے کا راستہ پتھریلااور دشوار ہے۔ایک طرف پتھریلاراستہ اور دوسری طرف کھائی ہے ۔کاغان اور جھیل سیف الملوک کے بیچ میں”لالازار“پوائنٹ پڑتا ہے اور اس جگہ سے بھی سیاح لطف اندوز ہوتے ہیں۔جھیل سیف الملوک پوچھنے پر وہاںبہت سارے کھانے پینے کے اسٹالز ہیں ،کچھ لوگ وہاںcamphingکرنے کے لیے رکتے ہیں ۔بچوںکے لیے جھولے اور پارک بھی ہیں۔جھیل میں کشتیاں بھی چلائی جاتی ہیں اور سیاح اس کے ذریعے دوسرے کنارے تک چلے جاتے ہیںاور بہت لطف اٹھاتے ہیں۔جھیل پہ سیاحوں کی آمد سے وہاں کے مقامی لوگوں کاروزگار چل رہا ہے اور اس جھیل کی خوب صورتی اور اس سے مشہور رومانوی اور روحانی د استان دنیا بھر کے لوگوں کی توجہ کا مرکزبنی ہوئی ہے۔

MC/93 SIMRA NASIR
These fotos are used only for academic purpose
This practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi

1 comment:

  1. Good. particularly compare and contrast with Sindh's lakes, this has localised it.attribution is missing. talk with people, shopkeepers, hotel owners, visitors etc, this would prove ur presence and visit of the lake. OR some quotes from famous travelogue.

    ReplyDelete