Saturday 14 November 2015

Profile of Yousuf Laghari Advocate

U should have written ur name and roll number

پروفائیل

حقوق کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے یوسف لغاری 
حقوق کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے یوسف لغاری 
پروفائل سعدیہ شمیم 

ساٹھ اور ستر کے عشرے نے سندھ میں ایسی نسل دی جو اہل نظر بھی تھی تو اہل فکر بھی۔ اس کی وجہ سندھ میں ون یونٹ اور ایوبی آمریت کے خلاف تحریک تھی۔ جس میں نوجوانوں نے یعنی طلباء نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ادیبوں، شاعروں، سیاستدانوں، ڈاکٹروں، وکلاء اور صحافیوں کے بڑے بڑے نام اسی دور کی پیداوار ہیں۔ یوسف لغاری بھی اسی کھیپ کا حصہ ہیں۔جو ستر سال کی عمر میں بھی ایکٹوسٹ ہیں۔
میرپورخاص کے چھوٹے سے گاؤں سے تعلق رکھنے والے یوسف لغاری نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں سے اور پھر ضلع ہیڈکوارٹر میرپورخاص سے حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں سندھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور قانون کی ڈگری حاصل کی۔ 1967 میں جب کمشنر حیدرآباد مسرور احسن کے کہنے پر سندھ یونیورسٹی کے وائیس چانسلر حسن علی عبدالرحمان کا تبادلہ کیا گیا تو یونیورسٹی کے طلباء سراپا احتجاج ہوگئے۔ یہ یونیورسٹی کی خود مختاری میں نوکرشاہی کی مداخلت تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کمشنر مسروراحسن خود وائیس چانسلر بننا چاہتے تھے۔ 
10 نومبر 1964ء کو حیدرآباد اسٹوڈنٹس فیڈریشن بنانے کے لئے طلباء کنونشن منعقد ہوا۔ یوسف لغاری کنوینیئر اور جام ساقی جنرل سیکریٹری چن لیے گئے۔ یہ طلباء تنظیم بائیں بازو کے زیر اثر کام کر رہی تھی۔
چار مارچ کو سندھ یونیورسٹی کے طلباء نیو کیمپس جامشورو سے بسوں میں سوار ہو کر احتجاج کرنے کے لئے حیدرآباد شہر آرہے تھے۔ جیسے ہی طلبائکی بسیں اس مقام پر پہنچیں جہاں اب راجپوتانا ہسپتال قائم ہے، پولیس نے طلباء کی بسوں کو روک کر ان پر لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس برسائی۔ نتیجے میں درجنوں طلبہ زخمی ہوگئے اور سینکڑوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ یوسف لغاری اس احتجاج کی قیادت کرنے والوں میں سے تھے۔ اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’جب ہم جامشورو کے پاس پہنچے تو پولیس، فوج اور رینجرز کے اہلکاروں نے پل کی ناکہ بندی کردی اور لڑکوں کو بسوں سے اتار کر پکڑنا شروع کردیا، وہ انہیں مارتے رہے اور فائرنگ بھی کی جس سے بہت سارے لڑکے زخمی بھی ہوئے۔ کئی لڑکوں نے دریا میں چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی۔یہ طلباء تحریک بعد میں سندھ بھر میں پھیل گئی۔یہ وہی چار مارچ ہے جو سندھ میں ون یونٹ مخالف تحریک کے ابھار کا سبب بنی۔ یوسف لغاری طالب علمی کے دور تک طالب علم لیڈر رہے اور طلباء تحریک کی رہنمائی کرتے رہے۔طلباء تحریک میں یوسف لغاری کے دیگر قریبی ساتھیوں میں جا م ساقی ،یوسف تالپور، علی احمد بروہی، مسعود نورانی، شامل ہیں۔ 
بعد میں انہوں نے میرپورخاص میں وکالت شروع کی۔ اور چند ہی برسوں میں کامیاب اور بڑے وکیل کے طور پر ابھرے۔ 
وہ نظریات اور فکر میں سندھ دوست اور عوام دوست رہے۔ کیونکہ طالب علمی کے دور میں ان کی ترقی پسند رہنماؤں سے قربت رہی۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں جب مخلتف سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں پر خصوصی فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے تو یوسف لغاری واحد وکیل تھے کو ان کی پیروی کرنے کے لئے پہنچتے تھے۔ انہوں نے مارشل لا دور کے مشہور مقدمات جام ساقی کیس، ہائیجیکنگ کیس، ایاز سموں کیس وغیرہ کی پیروی کی۔ انہوں نے گھانگھرا موری کیس، ٹنڈو بہاول کیس کے مقدمات کی بھی پیروی کی۔
یوسف لغاری پاکستان بار کونسل کے وائیس چیئرمین بھی رہے۔ 
سابق ایڈوکیٹ جنرل سندھ یوسف لغاری کا ہاریوں کے بارے میں اس طرح کا موقف رہا ہے۔ انہوں نے حٰدرآباد میں ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ستتر ہزار ہاریوں کے گاؤں رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں، انہیں رجسٹرڈ کیا جائے اور لیبر کورٹ کی طرح عدالتیں قائم کر کے ہاریوں کو انڈسٹریل ایکٹ کے حقوق دیئے جائیں۔سیمینار میں یہ بھی زیر بحث آیا کہ وقت کے ساتھ سندھ میں ٹیننسی ایکٹ کی افادیت کم ہو گئی ہے، جس میں ترمیم کی ضرورت ہے، جس سے ہاریوں اور آبادگاروں کے مسائل کے حل میں مدد ملے گی۔
تارکین وطن کی صورتحال کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی و مذہبی جماعتوں نے بیرون ملک ہیں مقامی پاکستانی کمیونٹی کو تقسیم کردیا ہے وقت کی یہ اہم ضرورت ہے کہ پاکستانی کمیونٹی کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے تاکہ کمیونٹی کو اپنے مسائل حل کرنے کے لئے مشترکہ پلیٹ فارم مہیا ہو، تارکین اصلاح معاشرہ کیلئے اقتصادی معاشی سیاسی اور سماجی انقلاب بپا کریں۔ 
غاری سندھی اخبارات میں کالم بھی لکھتے رہے۔ نوے کے عشرے میں انہیں آل پاکستان نیوزپیپرز سوسائٹی کی جانب سے بہترین کالم نگار کا ایوارڈ ملا۔لہٰذا وہ اچھے وکیل ہی نہیں اچھے کالم نگار بھی ہیں۔ اپنی تحریروں میں عوامی دانش کے ذریعے موجودہ حالات کی تشریح کرنے کے حوالے سے مشہور ہیں۔بعد میں ان کے کالموں کا مجموعہ کتابی شکل میں بھی شایع ہوا۔ چار مارچ پر ان کے تفصیلی انٹرویو اور مضامین بھی شایع ہو چکے ہیں۔
بعد میں وہ میرپورخاص سے حیدرآباد منتقل ہوئے ، لیکن میرپورخاص میں وکالت کا دفتر جاری رکھا۔ پیپلزپارٹی جب 2008 کے انتخابات کے بعد حکومت میںآئی تو انہیں ایڈوکیٹ جنرل سندھ بنایا گیا۔ دسمبر 2010 میں انہوں نے صوبائی وزارت قانون سے اختلافات کے بعد ایڈووکیٹ جنرل سندھ کے عہدے سے استعیفا دیدیا۔ وہ ڈھائی سال تک اس عہدے پرفائز رہے۔ 
انہوں نے سپریم کورٹ میں ایک مقدمے کی پیروی کے دوران سپریم کورٹ کو چونکا دیا جب انہوں نے عدلات سے گزارش کی کہ قرارداد مقاصد کو آئین سے خارج کردیا جائے۔ انہوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ قرارداد 56 کے آئین میں دائیں بازو کے عناصر نے شا مل کروائی تھی جسے جنرل ضیا نے دورباہ آئین کا حصہ بنایا۔ سرکاری سطح پر یہ بہت ہی بولڈ موقف تھا۔ 
انہوں نے سندھ میں متبادل قیادت دینے کی بارہا کوششیں کیں۔ اسی ضمن میں انہوں نے متوسط طبقے اور اہل فکر و نظر حضرات کو سندھ ڈیموکریٹک گروپ کے نام پر جمع کیا۔ لیکن ان کی یہ
کوشش ادھوری رہی۔ انہوں نے دو مرتبہ الیکشن میں بھی حصہ لیا لیکن پزیرائی نہ مل سکی۔ 
یوسف لغاری انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے بانی ممبران میں سے ہیں۔
ا نہوں نے میرپورخاص میں لاء کالیج قائم کیا۔ جس کے ذریعے نچلے طبقے اور پسماندہ علاقے کے سینکڑوں لوگ وکالت کی ڈگری حاصل کر سکے۔ اور اپنے روزگار کے ساتھ حقوق کا دفاع کرنے لگے۔ 
سندھ کے سیاسی کارکنوں اور ادبی حلقوں میں ماما یوسف کے طور پر پہچان رکھنے والے طبیعت میں سادہ قصے، کہانیاں اور لطیفے سنانے کے بادشاہ یوسف لغاری بے باک شخص اور اچھے وکیل کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ 
دوستوں کے حلقوں میں ما ما یوسف کے طور پر پہچان رکھنے والے یوسف لغاری ایڈووکیٹ ابھی بھی اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں وہ کبھی عدلاتوں میں، کبھی اخبارات کے کالموں میں، کبھی ٹاک شو میں یا پھر کبھی مختلف سیاسی پروگراموں نظر آتے ہیں اور اسی انداز اور لہجے میں بات کرتے ہیں جو جوانی میں تھا۔
Practical work was carried under supervision of Sir Sohail Sangi 

No comments:

Post a Comment