Monday 16 November 2015

Maryam Malik Interview

 قرةالعین وومین کمپلینٹ سیل کی انچارج سے گفتگو

 مریم ملک
قراةالعین وومین کمپلینٹ ’یل کی انچارج ’ے گفتگو
مریم ملک
وومین کمپلین ’یل حیدرآباد کی انچارج قرةالعین کا تعلق حیدرآباد “ہر کے ایریائ قا ’م آباد ’ے ہے۔ آپ کی پیدائ “ ۲مئی ۱۸۹۱ئ میں درمیانے طبقے ’ے تعلق رکھنے والے گھرانے میں ہوئی۔ آپ نے نف ’یات میں ما ’ٹر ’ کیا ہے۔ گز “تہ آٹھ ’الوں ’ے وومین کمپلینٹ ’ینٹر میں بڑی بہادری کے ’اتھ خدمات انجام دے رہی ہیں۔

’وال: وومین کمپلین ’یل کا کیا مق ”د ہے اور یہاں پر خواتین کو کیا ’ہولیات فراہم کی جاتی ہیں ؟
جواب: یہاں پر جو بے ’ہارا خواتین ہیں۔ جن کے پا ’ پی ’ے نہیں ہوتے کہ وہ اپنی قانونی معاوانات لے ’کیں۔ان کو ہم بغیر ک ’ی معاوضے کے لیگل ا ’ ’ٹن ’ دیتے ہیں ۔ دو ’را کاﺅن ’لینگ مہیا کر رہے ہوتے ہیں۔اگر کوئی ای ’ے کی ’ آتے ہیں۔ جن کو “یلٹر کی ضرورت ہے ان کو دارلامان میں بھیج دیتے ہیں اور یہ جو کمپلین ’یل ہے ۸۰۰۲ ’ے کام کر رہا ہے۔حیدرآباد ڈ ’ٹرک کے اندر یہاں پر ہم مختلف ق ’م کے جو وومین ای “و ہیں۔جی ’ے ہرا ’منٹ ہے،ڈومی ’ٹک ایولین ’ ہے، ریپ ہے، گینگ ریپ ہے،عزت کی خاطر قتل کرنا ہے،کم عمر میں “ادی ہے، زبرد ’تی کی “ادی ہے، ا ’ کے علاوہ دو ’رے جتنے بھی کی ’ ہیں وہ ہم یہاں پر ڈیل کر رہے ہو تے ہیں ۔ا ’ کے ’اتھ ’اتھ ہم کاﺅن ’لنگ کی بھی ’ہولیات ان کو مہیا کر رہے ہوتے ہیں۔
’وال: آپ کے پا ’ ک ’ طرح کی خواتین ر جوع کرتی ہیں؟
جواب:مےرے پا ’ جتنی بھی خواتین ہیں وہ درمیانے اور نچلے طبقے ’ے تعلق رکھتی ہیں۔کیونکہ زیادہ تر ان کے پا ’ تعلیم نہیں ہوتی ۔ان کے پا ’ اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے حق کے لیے بول ’کیں۔تو ا ’ وجہ ’ے وہ بے ب ’ ہو کر یہاںپر آتی ہیں ۔تعلیم کی کمے کی وجہ ’ے انہیں ’مجھ نہیں آ رہا ہوتا کہ وہ کیا کریں کچھ خواتین ای ’ی بھی ہوتی ہیں کہ وہ گھریلو م ’ائل کی وجہ ’ے فوراً فی ”لے لے رہی ہو تی ہیںکہ ہمیں خلع چاہیئے یا “وہر کے ’اتھ نہیں رہنا ہمیں بچے چاہیئے تو میں ان کا وئن ’لنگ کر رہی ہوتی ہوں کہ میں ان کو نورمل ذندگی کی طرف لے کر آﺅں ۔کیونکہ میں یہ ’مجھتی ہوں کہ ہمارے معا “رے میں کم ’ے کم خلع ہو ۔تو ہم ان کو ہر ’ہولیات دیتے ہیںاور ہر طرح ’ے مدد کرتے ہیں۔

’وال: ک ’ ق ’م کی خواتین آپ ’ے رجوع کرتی ہیں اور کہاں ’ے آتی ہیں؟
جواب: مےرے پا ’ زیادہ تر اندرونِ ’ندھ کی خواتین آتی ہیں ۔ یہاں حیدرآباد میں بھی کچھ ای ’ے علاقے ہیں جی ’ے پریٹاآباد پری ’ کلب، نورانی ب ’تی کا علاقہ ہے اورکوٹری ہے۔ یہ ای ’ے کچھ پ ’ ماندہ علاقے ہیں جہاں پر جہا لت کی وجہ ’ے عورتوں کے اوپر ظلم و ’تم کیے جا تے ہیں ، مارا پیٹا جاتا ہے،لیٹ نائٹ ان کو گھر ’ے دہکے دے کر نکال دیا جاتا ہے۔
مطلب یہ ”رف تعلیم کی کمی کی وجہ ’ے ہو رہی ہیں،ہم مذہب ’ے بہت ذیادہ دور ہو گئے ہیں، ہم لوگو ں میں اتنا “عور یا آگہی نہیں ہے کہ ہم ک ’ی کو ا ’کے جائز حقوق بھی دے ’کیں ۔ان ’ب معاملات میں ان کو ’پورٹ کر رہی ہوتی ہوں ۔تو میرے ’اتھ پولی ’ کا تعاون بہت اچھا ہوتا ہے، میڈیا مجھے بہت ذیا دہ ’پورٹ کر رہی ہوتی ہے اور کورٹ ’ کی طرف ’ے بھی کافی ’پورٹ ہو رہی ہو تی ہے ۔لیکن میری کو “ “ ہوتی ہے کہ جب میرے پا ’ کوئی کلائنٹ آئے تو میں ا ’کو کورٹ اور تھانے کی طرف نہ بھیجوں ۔کیونکہ بات چیت ’ے ہم بڑے ’ے بڑے م ’ئلے کو بھی ہم بہت آ ’انی ’ے ہل کر ’کتے ہیں۔ا ’ کمپین کو ہم جاری رکھتے ہوئے ان علاقوں میں بھی جا نے کی کو “ “ کریں گے جہاں پر ذیادہ تر کمپلیننٹ ہیں ۔جو ان م ’ائل ’ے گزر رہی ہیں ۔جتنی آگاہی ہمیں عورت کو دینے کی ضرورت ہے مجھے لگتا ہے کہ ا ’ ’ے کہیں ذیادہ مردوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے کیونکہ دیکھئے کہیں نہ کہیں ای ’ا نہیں کہ ”رف مرد ہی ظلم کر رہا ہوتا ہے کبھی کبھار ہماری خواتین میں بھی بردا “ت نہیں ہوتی ہے۔تو ہمیں دونو ں کو ’مجھانا چاہیئے کہ وہ اپنے نجی معاملات گھر بیٹھ کر ہل کر ’کتے ہیں۔

’وال: جب عورت گھر ’ے نکلتی ہے تو ک ’ ق ’م کا ا ’ پر ت “ددہواہوتاہے کبھی آپ نے ’وچا ےا پو چھنے کی کو “ “ کی جی ’ا کہ آپ نے کہا کہ آپ کون ’یلنگ کرتی ہیں تو وہ آپ کو بتاتی ہیں ؟ذیادہ تر آپ کے پا ’ ک ’ ق ’م کے کی ’ آتے ہیں؟ت “دد والے آئے؟ طلاق کے آئے؟ تیزاب کا ا ’تعمال ہے؟ان میں ’ے کون ’ے کی ’ آپ کے ’امنے آئے ؟
جواب: میرے پا ’ تو تقریباً ’ارے ہی کی ’ آتے ہیں لیکن جو عموماً میں کی ’ دیکھتی ہوںمیں وہ ہی بات کہہ رہی ہوں کوئی “ک نہیں کہ عورت کے ’اتھ بہت برا ہوتا ہے جب ہی عورت ذات اپنے گھر کی چار دیواری کے باہر آتی ہے۔میں نے بہت ’ارے ای ’ے کی ’ دیکھے ہیں جہاں عورت مارکھا رہی ہوتی ہے۔گھریلو ت “دد ہو رہا ہوتا ہے ۔خواتین ا ’ کوبردا “ت کر رہی ہوتی ہیں۔لیکن خواتین جو گھر ’ے نکلنے کا فی ”لہ کرتی ہیں وہ ذہنی طور پر بہت ذیادہ پری “ان ہوتی ہیںتب وہ یہ فی ”لہ لیتی ہیں کہ ہمیں یہاں پر نہیں رہنا ، جب ہی انہیں یہ فی ”لہ لینا چاہیئے۔ تو جب وہ آتی ہیں تو یہ نہیں ہے کہ ہم پہلے ہی یہ بولیں کہ آپ طبی معاینہ کرواوکہ آپ کو ج ’م پر کہاں پر ت “دد کیا ہے یا آپ کے ’اتھ اگر ج ’مانی چیز بھی ا ’تعمال کی گئی ہے تو ج ’م کے کون ’ے ح ”ّے پر کی گئی ہے اور ک ’ طریقے ’ے کی گئی ہے بہت ’اری خواتین ذہنی طور پر پری “ان ہو کر گھر ’ے نکلتی ہیں ۔ذہنی طور پر بھی ا ’یلئے بھی پری “ان ہوتی ہیں کہ ہمارے یہاں پر غربت بہت ہے مطلب کمانے والا ایک ہوتا ہے اور ا ’ کی تنخوائ ۰۱ ہزار ہو تو ظاہر ’ی بات ہے ۔ ہر بندہ یہاں پر گورنمنٹ نوکری پر نہیں ہے اور نہ ہی ہر بندہ نجی اداروں میں بھی کام نہیں کر رہا ہے۔ بہت ’ارے میں نے آپ کو بتایا ہے نچلے طبقے کے ہمارے پا ’ کی ’ آتے ہیں تو ان کی ذریعہ آمدنی اتنی نہیں ہو تی ایک کچھ فیملیاں ’اتھ میں رہے رہی ہوتی ہیںتو آپ ’ میں ’ا ’ نند کے م ’ائل ذیادہ ہوتے ہیں دو کمروں کا گھر ہے ۔اور ا ’ میں رہنے والے د ’ پندرہ لوگ ہوتے ہیں ۔اِ ’ نے یہ کہا، اُ ’ نے یہ کہا،یہ ’ب باتیں ان کو اتنا پری “ان کر رہی ہوتی ہیں کہ وہ چیزوں کو کم کرنے کے بجائے ان کو اور اپنے ذہن پر حاوی کر لیتی ہیں۔یہ ا ’ ہی وجہ ’ے ہیں اگر ہم اپنے رویوں پر مثبت تبدیلی لے کر آئیں تو مجھے نہیں لگتا کہ نہ کوئی گھر برباد ہوگا اور نہ ک ’ی کے گھر کی بیٹی جائے گی یہ ک ’ی کی بیٹی پر کوئی لڑکا غلط نگاہ رکھے گا اور بغیر بردا “ت کے کوئی ر “تہ ذیا دہ وقت تک قائم رہ نہیں ’کتا اور ماﺅں ’ے بھی یہ درخوا ’ت کروں گی کہ پلیز آپ نے اپنی ذندگی گزاری ہے تھوڑی اپنی بیٹیوں کو بھی ان کی عملی ذندگی گزارنے دیں اور اُن ماﺅں ’ے بھی گزار “ کرﺅ ں گی کہ خدا کا وا ’تہ کے جب آپ نے اپنے بیٹوں کی “ادی کی ہے کچھ ٹائم اُن دونوں کو بھی دیں، اُنکی بھی زندگی کی نئی “روعات ہے، آپ ان ’ر پر اتنا ’وار نہ ہو جائیں کہ ر “تے خوب ”ورتی کے بجائے بد ”ورتی کی طرف چلیں جائیںاور گھر کے حالات خراب ہوجائیں اور پھر ہم لوگو ں کی توجہ کا مرکز بن جاتے ہیں۔
’وال: آپ میں خواتین کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
جواب: میں یہ ہی اپنے ادارے کی طرف ’ے اور میری طرف ’ے بھی یہی پیغام دوں گی۔کہ آپ اپنے اندر قّوتِ بردا “ت رکھیں ۔ مخت ”ربولیں اور پُراثر بولیں ا ’ ’ے آپ کے ر “توں کو کوئی خراب نہیں کر ’کے گا اور آپ خود دیکھیں گی کہ آپ ان دو چیزوں کو عمل میں لائیںگی تو آپ کی ذندگی بہت خو “حال ہو گی اور آپ اورہم اچھی ذندگی گزاریں گی کیونکہ ہمارے گھروں ’ے ہی ہمارا ’ماج بنت ہے اور ہمارے گھروں ’ے ہی ہمارے آنے والی ن ’ل بنتی ہے۔


 MARYAM MALIK Roll No: 2K14/MC/
INTERVIEW OF QURATULLAIN
SOHAIL SANGI

No comments:

Post a Comment