Tuesday 3 November 2015

Kabootar Market Hyderabad

Faraz

اپنا نام، رول نمبر، سال، تاریخ لکھنے کی زحمت کر لیتے۔ یہ کوئی قدیمی مارکیٹ نہیں
کم از کم ۰۰۶ ۔ ۰۰۷ الفاظ چاہئیں اور فوٹو بھی
فیچر

حیدرآباد کی مشہور قدیم مارکیٹ:

حیدرآباد کی ایک مشہور قدیم کبوتر مارکیٹ قلعے گراو ¿نڈ پکے قلعے پر واقع ہے یہ منفر د شوق ایک مخصوص طبقے کے لوگوں کا روایتی شوق تھا اور آہستہ آہستہ اس شوق نے لوگوں میں رجحاں پاےا اور جوق در جوق اس کی گرفت میں آتے رہے۔ یہ روایتی میلہ ہر جمعہ اور اتوار کو سماں باندھتا ہے جس میں خریدنے والے اکثر و بیشتر کاروباری حضرات شامل ہیں اور بیچنے والے اکثر و بیشتر شہر حیدرآباد سے ہی تعلق رکھتے ہیں خریدنے والوں میں شہر حیدرآباد ، ٹنڈوجام، خیرپور ، ٹنڈو الہےار ، مٹیاری، کوٹری جیسے علاقوں سے بھی لوگ آتے ہہں ، یہ میلہ صبح (آٹھ ) بجے سے لیکر دوپہر ( تیں ) بجے تک جاری رہتا ہے۔
اس میلے میں کم و بیشتر تعداد (1500) تک ہوتی ہے کاروباری حضرات زیادہ تر (کل کاینپے) آسمانی کبوتر خریدتے ہیں جس کی وجہ اس کا آسماں میں تن جانا ہے ، کبوتروں میں سب سے نمایاں اقسام چھاپدار ، جوسیرے ، ویسی ، فیقے ہے جن کی نمایاں خاصیت ان کا آسماں میں پرواں چڑھ جانا ہے اور ان کو خریدنے کا مقصد اس کو اپنا ذریعہ روذگار بنانا ہے خواہ وہ جوّے کی صورت میں ہو یا اس کو پال کر مہنگے داموں فروخت کرنا شامل ہے، خوبصورتی کی طرف مائل کیا جائے تو سب سے بہترین اقسام نقاب پوش کی ہے اس کے علاوہ غبارہ ، لوٹن، کنگ ، گھومر ، کوٹرن، سراجی، انڈیں جنگلے شامل ہیں جن کا بنیادی مقصد گھر کی خوبصورتی کو نمایان کرنا ہے ۔
 کبوتروں کا دنگل کرانے کا بنیادی مقصد اپنے کبوتروں کو بہتر ثابت کرنا ہے اس کے ساتھ ساتھ ہار جیت میں لوگ شرطیں بھی لگاتے ہیں اور حتیٰ کہ بہت سے افراد کا ذریعہ معاش بھی ہے اور دنگلوں کے مقابلے کے حوالے سے ان کے مقابلے موسم گرما میں جون اور جولائی اور موسم سرما میں میں نومبر اور دسمبر کے مہینے میں مقابلہ منعقد ہوتا ہے جس میں لوگوں کو نقد انعام کے ساتھ ساتھ ٹرافیاں بھی دی جاتی ہیں ، کچھ افراد کبوتروں کو فروخت کرکے انھیں چھوڑ بھی دیتے ہیں جس میں ان کا بنیادی مقصد پرندوں کو رہا کرکے ثواب حاصل کرنا ہوتا ہے ، کبوتروں میں سستے سے سستا (200) دو سو روپے اور مہنگے سے مہنگا (10000) دس ہزار کا بھی کبوتر اس مارکیٹ میں دستیا ب ہے۔

This practical work was carried under supervision of Sir Sohail Sangi     

No comments:

Post a Comment